هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَمَن كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ ۖ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ إِلَّا مَقْتًا ۖ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ إِلَّا خَسَارًا
وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں جانشین بنایا، پھر جس نے کفر کیا تو اس کا کفر اسی پر ہے اور کافروں کو ان کا کفر ان کے رب کے ہاں ناراضی کے سوا کچھ زیادہ نہیں کرتا اور کافروں کو ان کا کفر ان کے رب کے ہاں خسارے کے سوا کچھ زیادہ نہیں کرتا۔
1۔ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىِٕفَ فِي الْاَرْضِ : اس کے انعام اور اپنے کفر اور ناشکری پر غور کرو، اس کا احسان دیکھو کہ اس نے پہلی نسل کو فوت کرکے تمھیں اس کی جگہ زمین اور اس میں موجود تمام چیزوں کا مالک بنا دیا۔ (خلیفہ کا مطلب سمجھنے کے لیے سورۂ بقرہ کی آیت (۳۰) ’’ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ‘‘ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) اگر ہر آنے والی نسل کے ساتھ پہلی تمام نسلیں بھی موجود رہتیں تو زمین میں نہ رہنے کی گنجائش رہتی، نہ ان کی ضروریات پوری ہوتیں۔ اس احسان کا بدلا تم نے یہ دیا کہ اس کی ناشکری کی، اس کا احسان ماننے سے انکار کیا اور اس کے ساتھ شریک بنا لیے، جنھوں نے نہ کچھ پیدا کیا، نہ ان کا زمین کی پیدائش یا ملکیت میں کوئی حصہ ہے اور تم نے انھیں پکارنا شروع کر دیا۔ 2۔ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗ : تو جو اس نعمت کی ناشکری کرے اور اس کا احسان ماننے اور اس کے احکام تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو اس کی ناشکری اور انکار کا وبال اسی پر پڑے گا، کسی دوسرے کو اس کا کچھ نقصان نہیں۔ 3۔ وَ لَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ اِلَّا مَقْتًا ....: یعنی اگر کفار کو ان کے کفر کے باوجود زمین کی خلافت ملی ہوئی ہے اور مال و اولاد اور دوسری نعمتوں کے ساتھ لمبی عمر ملی ہوئی ہے اور ان کی رسی دراز ہے، تو یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر خوش ہے، اس لیے انھیں نعمتیں دیے جا رہا ہے اور نہ یہ سمجھیں کہ وہ اس طرح نفع کا سودا کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کافروں کے کفر سے ان پر اللہ تعالیٰ کے شدید غضب میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے کفر سے ان کا خسارا ہی بڑھ رہا ہے، کیونکہ اس سے ان پر حجت تمام ہو رہی ہے اور ان کے عذر ختم ہو رہے ہیں۔