سورة فاطر - آیت 35

الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جس نے ہمیں اپنے فضل سے ہمیشہ رہنے کے گھر میں اتارا، نہ ہمیں اس میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نہ ہمیں اس میں کوئی تھکاوٹ پہنچتی ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الَّذِيْ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ : ’’ دَارَ الْمُقَامَةِ ‘‘ ہمیشہ رہنے کا گھر، جس سے کبھی نکالا نہیں جائے گا۔ مِنْ فَضْلِهٖ : یعنی جنت میں داخلہ اور ہمیشہ اس میں رہنا محض اللہ کے فضل سے ہے، کیونکہ آدمی کے اعمال تو ان نعمتوں کے شکر کے لیے بھی کافی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسے عطا کی ہیں، پھر اگر کوئی نیکی کی ہے تو محدود وقت میں کی ہے، اس پر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت محض اللہ کا فضل ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے : (( لَنْ يُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الْجَنَّةَ )) ’’کسی شخص کا عمل بھی اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔‘‘ صحابہ نے کہا : ’’تو کیا آپ کو بھی نہیں اے اللہ کے رسول!؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا، وَ لَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِفَضْلٍ وَ رَحْمَةٍ )) [ بخاري، المرضٰی، باب تمنی المریض الموت : ۵۶۷۳ ]’’نہیں، مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے فضل و رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔‘‘ لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا نَصَبٌ وَّ لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا لُغُوْبٌ : یعنی ہماری تمام محنتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ ہو گیا۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’رہنے کا گھر اس سے پہلے کوئی نہ تھا، ہر جگہ چل چلاؤ اور روزی کا غم، دشمنوں کا ڈر اور رنج اور مشقت، وہاں پہنچ کر سب گئے۔‘‘ (موضح)