وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا، خواہ وہ قرابت دار ہو، تو تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاک ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے پاک ہوتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
1۔ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى : اس آیت میں مشرکین کے اس غلط خیال کا رد فرمایا کہ قیامت کے دن کچھ لوگ ان کے گناہ اپنے ذمے لے کر انھیں چھڑا لیں گے، جیسا کہ نصرانیوں کا کہنا ہے کہ مسیح علیہ السلام ان کے گناہوں کی پاداش میں سولی پر چڑھ گئے اور بعض کلمہ گو حضرات کا کہنا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کی وجہ سے انھیں قیامت کے دن کوئی نہیں پوچھے گا، کیونکہ انھوں نے شہید ہو کر اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کے گناہوں کا بوجھ خود اٹھا لیا ہے۔ آیت میں ’’ وَازِرَةٌ ‘‘ محذوف لفظ ’’نَفْسٌ‘‘ کی صفت ہے، جو مؤنث ہے، اس لیے صفت بھی مؤنث آئی ہے اور یہ لفظ اس لیے اختیار فرمایا کہ اس میں مرد عورتیں سب آ جاتے ہیں۔ یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ 2۔ وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا ....: یعنی نہ یہ ہوگا کہ کوئی اپنے آپ کسی کے گناہوں کا بوجھ اٹھا لے اور نہ یہ ہوگا کہ کسی کے پکارنے اور درخواست کرنے سے کوئی کسی کا بوجھ اٹھالے، بلکہ اگر کوئی قرابت دار اپنے قریبی رشتہ دار کو اس مقصد کے لیے بلائے گا، حتیٰ کہ باپ ہو یا بیٹا تو وہ بھی اس کے بوجھ سے ذرہ برابر اپنے ذمے نہیں لے گا۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی اور ہر ایک دوسرے سے بھاگے گا۔ بلانے پر بھی بوجھ نہ اٹھانے کا ذکر الگ اس لیے فرمایا کہ عرب کے ہاں معروف تھا کہ جب کوئی تمھیں مدد کے لیے بلائے تو ہر صورت اس کی مدد کرو۔ فرمایا، وہاں بلانے پر بھی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ دیکھیے سورۂ لقمان (۳۳) اور عبس (۳۳تا ۳۷) مزید دیکھیے سورۂ انعام (۱۶۴)، بنی اسرائیل (۱۵) اور عنکبوت (۱۲، ۱۳)۔ 3۔ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ ....: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ آپ ان لوگوں کے رویے سے دلبرداشتہ اور غم زدہ نہ ہوں جو آپ کی دعوت سن کر ایمان نہیں لاتے، کیونکہ آپ صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں جو اپنے رب کو دیکھے بغیر اس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی بھی نہیں دیکھ رہا ہوتا اس وقت بھی اس سے ڈرتے ہیں (’’ بِالْغَيْبِ ‘‘ کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں) اور نماز قائم کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ کے ڈرانے سے وہی لوگ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس پر ایمان رکھتے، اس سے ڈرتے اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور جو ان دیکھے رب کو مانتا ہی نہیں اور ہٹ دھرمی اختیار کرتا ہے، اسے آپ کے ڈرانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا، نہ آپ اس کے لیے فکر مند ہوں۔ دیکھیے سورۂ یٰس (۱۱) اور سورۂ قٓ (۴۵)۔ 4۔ وَ مَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ : یعنی آپ کی نصیحت سن کر جو شخص کفر و شرک اور فسق و فجور کی نجاست سے پاک ہوتا ہے، اس کا آپ پر یا اللہ تعالیٰ پر کچھ احسان نہیں، اس کے پاک ہونے کا فائدہ خود اسی کو ہے۔ 5۔ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ : یعنی کفر و فسوق کی نجاست میں آلودہ رہنے کا یا اس سے پاک ہونے کا نتیجہ پوری طرح قیامت کے دن ظاہر ہوگا اور ضرور ظاہر ہو گا، کیونکہ سب کو دوبارہ اللہ ہی کی طرف واپس پلٹنا ہے۔