وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِم مِّن قَبْلُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُّرِيبٍ
اور ان کے درمیان اور ان چیزوں کے درمیان جن کی وہ خواہش کریں گے، رکاوٹ ڈال دی جائے گی، جیسا کہ اس سے پہلے ان جیسے لوگوں کے ساتھ کیا گیا۔ یقیناً وہ ایسے شک میں پڑے ہوئے تھے جو بے چین رکھنے والا تھا۔
1۔ وَ حِيْلَ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ ....: ’’أَشْيَاعٌ‘‘ ’’شِيْعَةٌ‘‘ کی جمع ہے، ایک جیسے لوگوں کی جماعت۔ ’’ مَا يَشْتَهُوْنَ ‘‘ (جس کی وہ خواہش کریں گے) سے مراد توبہ اور ایمان لانا ہے۔ یعنی وہ آخرت میں چاہیں گے کہ ان کا ایمان قبول ہو جائے اور عذاب سے ان کی نجات ہو جائے، مگر ان کے درمیان اور ان کی خواہش کے درمیان رکاوٹ ڈال دی جائے گی، جیسا کہ ان سے پہلے توحید و رسالت اور آخرت کے منکرین کے ساتھ کیا گیا کہ عذاب دیکھنے کے بعد کسی کی توبہ قبول ہوئی نہ ایمان لانا معتبر ہوا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ فِيْ عِبَادِهٖ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ﴾ [ المؤمن : ۸۵ ] ’’پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا، جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔‘‘ 2۔ اِنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ : ’’ مُرِيْبٍ ‘‘ ’’أَرَابَ يُرِيْبُ إِرَابَةً‘‘ (افعال) سے اسم فاعل ہے، بے چین رکھنے والا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید، اس کے پیغمبروں کی رسالت اور آخرت سے انکار کرنے والوں کے عقائد کی بنیاد علم پر نہیں ہوتی، بلکہ محض وہم و گمان پر ہوتی ہے۔ وہ کبھی دلیل کے ساتھ ثابت نہیں کر سکتے کہ اتنی عظیم کائنات کسی بنانے والے کے بغیر خود بخود بن گئی، یا ان کے بنائے ہوئے معبود فی الواقع اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک ہیں، نہ ہی وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بشر کو اپنا پیغمبر نہیں بنا سکتا، نہ یہ کہ وہ دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتے یا قیامت نہیں آ سکتی، وہ خود بھی اس کے متعلق شک میں مبتلا رہتے ہیں اور شک بھی ایسا جو انھیں بے چین رکھتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنے بعض مفادات کی بنا پر اپنے شک کا اظہار نہیں کرتے۔