لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
بلاشبہ یقیناً سبا کے لیے ان کے رہنے کی جگہ میں ایک نشانی تھی۔ دو باغ دائیں اور بائیں ( جانب) سے۔ اپنے رب کے دیے سے کھاؤ اور اس کا شکر کرو، پاکیزہ شہر ہے اور بے حد بخشنے والا رب ہے۔
1۔ لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِيْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ: اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان علیھما السلام کے ذکر کے بعد، جو انابت و رجوع والے شکر گزار بندے تھے، قومِ سبا کا ذکر فرمایا، جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتیں دیں، مگر انھوں نے ان نعمتوں کی ناشکری کی، انابت کے بجائے اعراض اور سرکشی اختیار کی، اپنے رسولوں کو اور آخرت کو جھٹلا دیا، جس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا اور ساری خوش حالی ختم ہو گئی۔ اس میں قریش کے لیے بھی نصیحت تھی، جنھیں بیت اللہ کی وجہ سے ہر طرح کی نعمت و راحت میسر تھی، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کو جھٹلایا تو قومِ سبا کی طرح ان کی وہ خوش حالی اور امن و سکون ختم ہو گیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ (116) وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ ﴾ [ النحل : ۱۱۲، ۱۱۳ ] ’’اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی ، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اور بلاشبہ یقیناً ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو انھیں عذاب نے اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ ظالم تھے۔‘‘ سلیمان علیہ السلام کے ذکر کے ساتھ سبا کے ذکر کا ایک اور تعلق بھی ہے جو سورۂ نمل میں مذکور سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کے قصے سے ظاہر ہے۔ 2۔ سبا سے مراد قوم ہے جس کا باپ سبا نامی شخص تھا۔ (دیکھیے سورۂ نمل : ۲۲) پھر ملک کا نام بھی یہی پڑ گیا۔ 3۔ فِيْ مَسْكَنِهِمْ: یہ علاقہ آج کل یمن کے نام سے معروف ہے۔ 4۔ اٰيَةٌ : یعنی ان کے لیے ان کے ملک میں بہت بڑی نشانی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی قدرت اور کاری گری کا اظہار ہوتا تھا اور جسے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ ایسے مالک کا شکر اور اس کی اطاعت واجب ہے اور اس کی ناشکری اور نافرمانی سے پرہیز لازم ہے۔ 5۔ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ : یہ اس نشانی کی تفصیل ہے۔ سبا کی عمارتوں کا ذکر کرتے ہوئے ’’ارض القرآن‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے : ’’اسی سلسلۂ عمارت میں ایک چیز ’’بند مآرب‘‘ ہے، جس کو عرب حجاز ’’سد‘‘ اور عرب یمن ’’عرم‘‘ کہتے ہیں۔ عرب کے ملک میں کوئی دائمی دریا نہیں، پانی پہاڑوں سے بہ کر ریگستانوں میں خشک اور ضائع ہو جاتا ہے، زراعت کے مصرف میں نہیں آتا۔ ’’سبا‘‘ مختلف مناسب موقعوں پر پہاڑوں اور وادیوں کے بیچ میں بڑے بڑے بند باندھ دیتے تھے کہ پانی رک جائے اور بقدر ضرورت زراعت کے کام میں آئے۔ مملکت سبا میں اس طرح کے سیکڑوں بند تھے، ان میں سب سے زیادہ مشہور ’’سد مآرب‘‘ ہے، جو ان کے دار الحکومت ’’مارب‘‘ میں واقع تھا۔ شہر مارب کے جنوب میں دائیں بائیں دو پہاڑ ہیں، سبا نے ان دو پہاڑوں کے بیچ میں تقریباً ۸۰۰ ق م میں ’’سد مارب‘‘ کی تعمیر کی تھی۔ یہ بند تقریباً ایک سو پچاس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی ایک دیوار ہے۔ اس کا اکثر حصہ تو اب افتادہ ہے، تاہم ایک ثلث دیوار اب بھی باقی ہے۔ ’’ارناڈ‘‘ ایک یورپی سیاح نے اس کے موجودہ حالات پر ایک مضمون فرنچ ایشیا ٹک سوسائٹی کے جرنل (رسالے) میں لکھا ہے، اس کا موجودہ نقشہ نہایت عمدگی سے تیار کیا ہے، اس دیوار پر جا بجا کتبات ہیں، وہ بھی پڑھے گئے۔ اس سد میں اوپر نیچے بہت سی کھڑکیاں تھیں جو حسب ضرورت کھولی اور بند کی جا سکتی تھیں۔ ’’سد‘‘ کے دائیں بائیں، مشرق و مغرب میں دو بڑے بڑے دروازے تھے، جن سے پانی تقسیم ہو کر چپ و راست کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔ اس نظام آب رسانی سے چپ و راست دونوں جانب اس ریگستانی اور شور ملک کے اندر سیکڑوں کوس تک بہشت زار تیار ہو گئی تھی، جس میں انواع و اقسام کے میوے اور خوشبودار درخت تھے۔ قرآن کریم ’’ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ ‘‘ کہہ کر انھی باغوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘‘ (ارض القرآن) دائیں اور بائیں دو باغوں کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر گھر اور ہر گلی کے دائیں بائیں، یعنی ہر طرف باغ ہی باغ تھے۔ 6۔ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ: یعنی ہم نے اپنے رسولوں اور صالح بندوں کی زبانی ان سے یہ بات کہی، یا اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں اور دائیں بائیں کے ان باغات اور کھیتوں کا ان سے تقاضا یہ تھا۔ 7۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ: ’’طیب‘‘ ہر چیز میں سے اعلیٰ کو کہتے ہیں۔ ’’بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ‘‘سے مراد زرخیز اور عمدہ آب و ہوا والی زمین ہے، اس کے مقابلے میں بنجر، شور اور خراب آب و ہوا والی زمین کے لیے ’’خبیث‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ الْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ وَ الَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا ﴾ [ الأعراف : ۵۸ ] ’’اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کی کھیتی اس کے رب کے حکم سے نکلتی ہے اور جو خراب ہے (اس کی کھیتی) ناقص کے سوا نہیں نکلتی۔‘‘ 8۔ وَ رَبٌّ غَفُوْرٌ : یعنی اگر توحید پر قائم رہو گے، انبیاء کی اطاعت کرو گے اور انابت و رجوع کو اپنا شیوہ بناؤ گے تو اس خوش حالی کے ساتھ اپنے رب کو بھی اپنے لیے مہربان پاؤ گے، جو تمھاری کوتاہیوں پر پردہ ڈالے گا، اس طرح دنیا و آخرت دونوں تمھاری ہوں گی۔