سورة سبأ - آیت 9

أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا انھوں نے اس کی طرف نہیں دیکھا جو آسمان و زمین میں سے ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے، اگر ہم چاہیں انھیں زمین میں دھنسا دیں، یا ان پر آسمان سے کچھ ٹکڑے گرا دیں۔ یقیناً اس میں ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے ضرور ایک نشانی ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ ....: فرمایا، آخرت کا انکار زمین و آسمان کی پیدائش میں غوروفکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ اگر یہ اپنے آگے اور پیچھے چاروں طرف پھیلے ہوئے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے پر غور کرتے، جن کی وسعت ان کے خیال سے بھی زیادہ ہے تو زمین وآسمان کو پیدا کرنے والے کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر نہ تعجب کرتے، نہ اس کا انکار کرتے، کیونکہ آسمان و زمین کی پیدائش کے مقابلے میں ان کی تخلیق تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنٰىهَا ﴾ [ النازعات : ۲۷ ] ’’کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان؟ اس نے اسے بنایا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ﴾ [ المؤمن : ۵۷ ] ’’یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ ....: ’’ كِسَفًا ‘‘ ’’كِسْفَةٌ‘‘ کی جمع ہے، ٹکڑے۔ اس میں کفار کو ڈرایا ہے کہ یہی آسمان و زمین جن کو تم اپنے لیے نفع بخش اور زندگی کا سبب سمجھتے ہو، اللہ تعالیٰ چاہے تو انھی چیزوں کو تمھاری ہلاکت کا موجب بنا سکتا ہے۔ پھر وہ چاہے تو تمھیں اس زمین میں دھنسا دے، جیسے اس نے قارون کو دھنسا دیا، یا آسمان سے عذاب کے کچھ ٹکڑے گرا دے، جیسے اس نے اصحاب الایکہ کے ساتھ کیا۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ : یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصّب یا ہٹ دھرمی نہ رکھتا ہو، بلکہ اخلاص کے ساتھ اپنے رب سے ہدایت کا طالب ہو اور اس کی طرف رجوع رکھتا ہو، اس کے لیے تو آسمان و زمین کے اس عظیم الشّان نظام میں بہت بڑا سبق موجود ہے کہ جس نے اتنا بڑا حکمت سے بھرا ہوا نظام بنایا ہے، وہ دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے اور یہ بھی سبق ہے کہ اس کی عنایت اور اس کے فضل ہی سے ہم بچے ہوئے ہیں، ورنہ وہ ایک ہی لمحہ میں ہمیں ہلاک کر سکتا ہے۔ یہ زمین اس کی ہے اور آسمان بھی اسی کا ہے، پھر ہم بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں؟ مگر جو اپنے رب کی طرف رجوع کے بجائے اس سے بغاوت اختیار کر چکا ہو، اس کے لیے یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس میں کوئی سبق نہیں۔