لِّيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
تاکہ وہ ان لوگوں کو بدلہ دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے سراسر بخشش اور باعزت رزق ہے۔
لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ....: ان آیات میں قیامت کا مقصد اور اس کی حکمت بیان کی گئی ہے، یعنی قیامت اس لیے برپا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ایمان اور عمل صالح والوں کو ان کی جزا دے، کیونکہ دنیا کی محدود مدت میں نہ نیکوں کو ان کی پوری جزا ملتی ہے، نہ بدوں کو ان کی پوری سزا۔ اب اگر جزا و سزا کا کوئی دن ہی نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نیک و بد یکساں ہیں، جب کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے۔ دیکھیے سورۂ ص (۲۸)، سجدہ (۱۸ تا ۲۰) اور حشر (۲۰) اور اللہ تعالیٰ کے عدل کے بھی خلاف ہے۔ (دیکھیے انبیاء : ۴۷) بلکہ یہ ان لوگوں پر ظلم ہو گا جن پر دنیا میں ظلم ہوتا رہا، جب کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ذرہ برابر ظلم کا روا دار نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ مَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۴۶ ] ’’اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔‘‘ بھلا وہ کون سا مالک ہے جس کے غلاموں میں سے کوئی اس کا حکم مانے، کوئی نہ مانے اور وہ سب سے یکساں سلوک کرے، اور اس کے غلاموں میں سے بعض بعض پر ظلم کرتا رہے اور وہ ظالم سے باز پرس ہی نہ کرے، پھر جب انسان اپنے غلاموں میں یہ برداشت نہیں کرتا تو اس بادشاہوں کے بادشاہ، ملک الملوک کے متعلق یہ گمان کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ’’ مَغْفِرَةٌ ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے اور ’’ رِزْقٌ كَرِيْمٌ ‘‘ سے مراد جنت کی نعمتیں ہیں۔ دیکھیے سورۂ سجدہ (۱۷)۔