يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ نے اسے اس سے پاک ثابت کردیا جو انھوں نے کہا تھا اور وہ اللہ کے ہاں بہت مرتبے والا تھا۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى : اوپر بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والوں پر لعنت اور ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ سورت کے شروع ہی سے منافقین کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینے کا ذکر چلا آرہا ہے، جو کبھی جنگ احزاب میں یہ کہنے کی صورت میں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول نے محض دھوکا دینے کے لیے ہم سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا، کبھی میدان چھوڑ کر گھروں کو جانے کی اجازت مانگنے کی صورت میں اور کبھی یہ کہہ کر کہ اب مسلمانوں کی مدینہ میں رہنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس کے علاوہ ان کی یہود اور دوسرے کفار کے ساتھ دوستی اور ان کی فتح کی خواہش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سخت تکلیف دہ تھی۔ آپ کی ذاتی زندگی کے متعلق تکلیف دہ باتیں اس پر مزید تھیں۔ مثلاً آپ کی چار سے زائد بیویوں پر اعتراض، اپنے متبنّٰی زید رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنھا سے نکاح وغیرہ۔ سورت کے آخر میں پھر اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا سے یہ کہہ کر منع فرما رہے ہیں کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ایذا دی۔ 2۔ موسیٰ علیہ السلام کو ایذا دینے والوں کی باتوں کا قرآن میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔ ظاہر ہے تمام بنی اسرائیل ایسے نہیں تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی طرح ہونے سے منع فرمایا جنھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ایذا دی۔ ان لوگوں کا یہ رویہ موسیٰ علیہ السلام کے لیے سخت تکلیف دہ تھا کہ عموماً وہ حکم ماننے سے صاف انکار کر دیتے تھے اور اس کے لیے لفظ بھی ’’لَنْ‘‘ (ہر گز نہیں) کا استعمال کرتے جو نفی کی تاکید کے لیے آتا ہے، مثلاً : ﴿ لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ ﴾ [ البقرۃ : ۶۱ ]، ﴿ لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ﴾ [ البقرۃ : ۵۵ ] اور : ﴿لَنْ نَّدْخُلَهَا اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْهَا﴾ [ المائدۃ : ۲۴ ] ہارون علیہ السلام کے بچھڑے کی عبادت سے منع کرنے پر کہنے لگے : ﴿ لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى﴾ [ طٰہٰ : ۹۱ ] ’’ہم اسی پر مجاور بن کر بیٹھے رہیں گے، یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس آئے۔‘‘ کبھی حکم کی تعمیل میں ٹال مٹول سے کام لیتے تھے، جیسا کہ گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو پہلے ’’ اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ‘‘ کہا، پھر گائے کی کیفیت کے متعلق سوال پر سوال داغتے رہے۔ ان کا یہ رویہ ان کے اس محسن کے ساتھ تھا جس نے ان کی خاطر لمبی مدت تک فرعون سے تکلیفیں جھیلیں، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے انھیں فرعون کی غلامی سے نجات اور آزادی کی نعمت عطا فرمائی۔ جس کی دعا سے انھیں من و سلویٰ ملتا تھا، بادلوں کا سایہ میسر تھا اور ان کے لیے پانی کے بارہ چشمے جاری تھے۔ 3۔ فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا : ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی ایذا موسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی پر الزام اور دھبے لگانے تک پہنچ گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ان کے تمام الزامات سے پاک ہونا روز روشن کی طرح ظاہر فرما دیا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت مرتبے والے تھے۔ ممکن نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر کوئی داغ لگنے دیتا۔ 4۔ بنی اسرائیل کی جانب سے موسیٰ علیہ السلام کی ایذا کا ایک نمونہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے، بہت پردے والے تھے۔ شدید حیا کی وجہ سے ان کی جلد کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بنی اسرائیل کے ایذا دینے والوں میں سے بعض نے انھیں ایذا دی اور کہنے لگے : ’’موسیٰ اپنا جسم اتنا سخت چھپاتے ہیں تو ضرور اس میں کوئی عیب ہے، یا برص ہے، یا خصیہ پھولا ہوا ہے، یا کوئی اور بیماری ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ موسیٰ علیہ السلام کا ان چیزوں سے پاک ہونا ظاہر کرے، جو وہ ان کے متعلق کہتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اکیلے ہوئے تو اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کرنے لگے، جب فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کے لیے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ اٹھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی لی اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ اے پتھر! میرے کپڑے، اے پتھر! میرے کپڑے۔ یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک مجلس کے پاس جا پہنچا اور انھوں نے انھیں ننگا دیکھ لیا۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق میں سب سے خوب صورت اور ان عیبوں سے بالکل بری تھے جو وہ کہتے تھے۔ الغرض! پتھر رک گیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے اور پتھر کو اپنی لاٹھی سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم! پتھر پر ان کے مارنے کی وجہ سے لاٹھی کے تین یا چار یا پانچ نشان پڑ گئے۔ یہ مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًا ﴾ [ الأحزاب : ۶۹ )) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ۳۴۰۴ ] 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اوقات کسی بظاہر مسلمان کی طرف سے ایذا دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو دی جانے والی ایذا اور اس پر ان کے صبر کا ذکر فرمایا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال تقسیم کیا تو ایک آدمی کہنے لگا : ’’اس تقسیم میں اللہ کی رضا مقصود نہیں رکھی گئی۔‘‘ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ غصے میں آ گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ کے چہرے میں غصے کو دیکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَرْحَمُ اللّٰهُ مُوْسٰي قَدْ أُوْذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هٰذَا فَصَبَرَ )) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ۳۴۰۵ ]’’اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم فرمائے، انھیں اس سے زیادہ ایذا دی گئی تو انھوں نے صبر کیا۔‘‘ 6۔ بعض تفاسیر میں اس ایذا کے ضمن میں مذکور ہے کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام پر ہارون علیہ السلام کے قتل کا الزام لگا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے بھیجے، جنھوں نے ہارون علیہ السلام کی میت اٹھا کر دکھا دی اور اس میں ایسا کوئی نشان نہیں تھا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی براء ت فرما دی۔ مگر یہ قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں، ظاہر ہے یہ اسرائیلی روایت ہے جسے ہم نہ سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔