يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا
جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے، کہیں گے اے کاش کہ ہم نے اللہ کا کہنا مانا ہوتا اور ہم نے رسول کا کہنامانا ہوتا۔
1۔ يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ : یہ بیان کرنے کے بعد کہ کوئی سفارش کرنے والا یا مددگار ان سے عذاب نہیں ہٹا سکے گا، اب بیان فرمایا کہ ان کے جسم کے اعضا میں سے کوئی عضو بھی دوسرے عضو کو آگ سے نہیں بچا سکے گا۔ دنیا میں چہرے پر آنے والی کسی ضرب یا آگ کی لپٹ سے ہاتھ ڈھال بن جاتا ہے، یا آدمی سرجھکا لیتا ہے، مگر وہاں چہرے اور آگ کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۳۹)، زمر (۲۴) اور سورۂ قمر (۴۸) پھر جب چہرے کا یہ حال ہو گا، جو جسم کا سب سے باشرف حصہ ہے تو ددسرے اعضا کا کیا حال ہو گا!؟ 2۔ آگ میں چہرے الٹ پلٹ کیے جانے کے ذکر سے مقصود ان کی بری حالت کی منظر کشی ہے کہ اگرچہ چہروں کو چاروں طرف سے آگ نے گھیر رکھا ہو گا، اس کے باوجود انھیں الٹ پلٹ بھی کیا جائے گا، تاکہ نئی سے نئی آگ کے سامنے آتے رہیں اور ایک جگہ سے اگر تکلیف میں کوئی کمی ممکن ہو تو وہ بھی نہ ہو سکے۔ (دیکھیے توبہ : ۳۵) نئے سے نئے عذاب کے لیے چہروں کے الٹ پلٹ کیے جانے کے ساتھ چمڑوں کی مسلسل تبدیلی کا عمل بھی جاری رہے گا۔ دیکھیے سورۂ نساء (۵۶) [ اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ وَ مِنْ حَالِ أَھْلِ النَّارِ ] 3۔ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَا اَطَعْنَا اللّٰهَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا : ’’لَيْتَ‘‘ (کاش) کا لفظ تَمَنّی کے لیے ہوتا ہے، یعنی ایسی چیز کی خواہش جو ممکن نہ ہو۔ ابن کثیر نے فرمایا، اس حال میں جب کہ ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں گے، وہ تمنا کریں گے کہ کاش! دنیا میں انھوں نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے میدانِ حشر میں ان کا حال بیان فرمایا : ﴿وَ يَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا (27) يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا (28) لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِيْ وَ كَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا ﴾ [ الفرقان : ۲۷ تا ۲۹ ] ’’اور جس دن ظالم اپنے دونوں ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، کہے گا اے کاش! میں رسول کے ساتھ کچھ راستہ اختیار کرتا۔ ہائے میری بربادی! کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔ بے شک اس نے تو مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا، اس کے بعد کہ میرے پاس آئی اور شیطان ہمیشہ انسان کو چھوڑ جانے والا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ﴾ [ الحجر : ۲ ] ’’بہت بار چاہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کاش! وہ کسی طرح کے مسلم ہوتے۔‘‘