سورة الأحزاب - آیت 36

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ ....: ’’ الْخِيَرَةُ ‘‘ ’’تَخَيَّرَ يَتَخَيَّرُ‘‘ (تفعّل) کا مصدر ہے، جیسا کہ ’’تَطَيَّرَ ‘‘ کا مصدر ’’اَلطِّيَرَةُ‘‘ ہے۔ اہلِ علم فرماتے ہیں، اس وزن پر اس باب سے یہی دو مصدر آتے ہیں۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رہنے کا یا اپنے سے الگ ہونے کا اختیار دیں، تاکہ واضح ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لیے کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ اب فرمایا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح بیویوں کو ساتھ رہنے یا جدا ہونے کا اختیار دیا گیا، اس طرح ہر آدمی کو ہر کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے یا نہ ماننے کا اختیار ہے۔ بلکہ کچھ کام ایسے ہیں جن میں کسی مومن مرد یا مومن عورت کو اپنی مرضی کا اختیار نہیں، یہ وہ کام ہیں جن کا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول واضح حکم دے دیں اور اسے کرنے یا نہ کرنے کی گنجائش نہ دیں۔ اگر وہ خود ہی گنجائش دے دیں تو الگ بات ہے، جیسا کہ بریرہ رضی اللہ عنھا لونڈی تھیں تو مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، جب وہ آزاد ہوئیں تو خاوند کے غلام ہونے کی وجہ سے انھیں اس کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔ بریرہ رضی اللہ عنھا نے اس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا : (( يَا عَبَّاسُ! أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيْثٍ بَرِيْرَةَ، وَ مِنْ بُغْضِ بَرِيْرَةَ مُغِيْثًا ))’’اے عباس! کیا تمھیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر تعجب نہیں ہوتا؟‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : (( لَوْ رَاجَعْتِهِ؟)) ’’کاش! تو اس سے رجوع کر لیتی؟‘‘ اس نے کہا : ’’یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ )) ’’میں تو صرف سفارش کر رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا : (( فَلَا حَاجَةَ لِيْ فِيْهِ )) [ بخاري، الطلاق، باب شفاعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في زوج بریرۃ : ۵۲۸۳ ] ’’مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ’’ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ اَمْرًا ‘‘ کا یہی مطلب ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فیصلہ کن حکم آجائے تو کسی مسلمان کو اپنا اختیار استعمال کرنے کی کسی صورت میں گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ’’ كَانَ ‘‘ کے ساتھ ’’ مَا ‘‘ نافیہ کی مزید تاکید ہو رہی ہے، کیونکہ ’’ كَانَ ‘‘ کے ساتھ نفی کا استمرار اور اس کی ہمیشگی مقصود ہے۔ یعنی کسی مومن مرد یا مومن عورت کو کبھی بھی یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول…۔ 2۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کی شان نزول یہ لکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبد المطلب کی بیٹی زینت بنت جحش رضی اللہ عنھا کو اپنے متبنٰی اور آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کے لیے کہا تو انھوں نے یہ کہہ کر کہ میں حسب میں اس سے بہتر ہوں، انکار کر دیا۔ اس پر یہ آیت اتری تو وہ نکاح پر رضا مند ہو گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا نکاح کر دیا۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس شان نزول کی دو روایتیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی عوفی عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ہے، جو طبری نے روایت کی ہے، اس کی سند ضعیف ہے۔ دوسری ابن لہیعہ عن ابن ابی عمرہ عن عکرمہ عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ہے، اسے بھی طبری نے روایت کیا ہے اور یہ بھی ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی یقینی نہیں کہ زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح زید رضی اللہ عنہ سے ہجرت کے بعد ہوا تھا، جب کہ یہ سورت مدنی ہے۔ ابن عاشور نے اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ یہ نکاح ہجرت سے پہلے مکہ میں ہو چکا تھا اور ابن کثیر نے مقاتل بن حیان کا جو قول نقل کیا ہے کہ زینب رضی اللہ عنھا زید رضی اللہ عنہ کے پاس ایک سال کے قریب رہیں، ثابت نہیں، کیونکہ مقاتل تبع تابعی ہیں، انھوں نے اس بات کو نقل کرنے والے تابعی کا ذکر کیا ہے نہ صحابی کا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اصول شریعت کی رُو سے دیکھا جائے تو گو نکاح کرنا ایک شرعی حکم ہے، مگر یہ بات کہ نبی کسی خاص عورت کو کسی خاص مرد، یا کسی خاص مرد کو کسی خاص عورت سے نکاح کرنے پر شرعی طور پر مامور کرے صحیح نہیں، یعنی نبی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو فلاں مرد سے شادی کر اور اگر وہ عورت نہ مانے تو نافرمان قرار پائے۔ ہمارے اس دعویٰ پر بریرہ رضی اللہ عنھا کی حدیث قوی شہادت ہے (جو اسی آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہے)۔‘‘ (تفسیر ثنائی) اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہ کہنے کے بجائے کہ زینب رضی اللہ عنھا نے اس آیت کے نزول سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا، اس آیت کو اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کی تاکید سمجھا جائے، جس طرح یہ تاکید اسی سورت کے شروع میں اس سے بھی جامع الفاظ میں گزر چکی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ﴾ [ الأحزاب : ۶ ] ’’یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہے۔‘‘ 3۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت تمام احکام کے لیے عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جب کسی چیز کا فیصلہ فرما دیں تو نہ کسی کے لیے اس کی ممانعت جائز ہے، نہ اسے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے، نہ اس کے مقابلے میں کسی قیاس یا رائے یا قول اقوال کی کوئی حیثیت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ﴾ [ النساء : ۶۵ ] ’’پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔‘‘ وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ....: اس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی شدید وعید ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ﴾ [ النور : ۶۳ ] ’’سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انھیں دردناک عذاب آ پہنچے۔‘‘