وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا
اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے نہایت باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے۔
1۔ وَ اذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ....: پچھلی آیات میں امہات المومنین کو عمل کا حکم دیا تھا، جس میں کچھ چیزوں سے اجتناب اور کچھ چیزوں کے ادا کرنے کا حکم تھا، اب انھیں علم حاصل کرنے اور اسے آگے پہنچانے کا حکم دیا۔ ’’ اذْكُرْنَ ‘‘ ’’ذِكْرٌ‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی دل میں یاد کرنا اور یاد رکھنا بھی ہے اور کسی کلام کو زبان پر لانا بھی۔ یعنی تمھارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت کی جو تلاوت کی جاتی ہے، اسے یاد کرو اور یاد رکھو، کبھی اس سے غفلت نہ کرو اور اسے دوسرے لوگوں کے سامنے بھی ذکر کرو اور ان تک پہنچاؤ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری یہ تھی کہ اللہ کے احکام امت تک پہنچا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مرد یا ایک عورت تک کوئی حکم پہنچا دینے سے آپ کا فریضہ ادا ہو جاتا تھا، پھر اس مرد یا عورت کا فرض ہوتا کہ اسے آگے پہنچائے، جیسا کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آيَةً )) [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني إسرائیل : ۳۴۶۱ ] ’’میری طرف سے آگے پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہو۔‘‘ امت کے ہر فرد کو ہر حکم بہ نفس نفیس پہنچانا نہ آپ کے ذمے تھا، نہ آپ کے لیے ممکن تھا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اقوال و افعال اور احوال ایسے تھے جن کا تعلق گھریلو زندگی سے تھا اور جن کا علم صرف ازواج مطہرات کو ہوتا تھا، اس لیے انھیں آیات و حکمت کو یاد کرنے، انھیں یاد رکھنے اور لوگوں کے سامنے ذکر کرنے کا حکم دیا اور امہات المومنین نے یہ فریضہ نہایت خوش اسلوبی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا۔ چنانچہ دینی مسائل کا بہت بڑا حصہ انھی کے ذریعے سے امت تک پہنچا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی وہ ان سے پوچھتے اور انھیں ان کے پاس سے، خصوصاً عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس سے اس کا تسلی بخش حل مل جاتا۔ 2۔ یہ آیت عورتوں کو دین کی تعلیم دلانے کی واضح دلیل ہے، مردوں کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کریں اور اسے آگے پہنچائیں۔ 3۔ ’’ اٰيٰتِ اللّٰهِ ‘‘ سے مراد قرآن کریم کی آیات ہیں۔ ’’ الْحِكْمَةِ ‘‘ کا لفظی معنی دانائی اور عقل کی بات ہے، مراد اس سے قرآن مجید کے علوم اور معانی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے تھے۔ اسی طرح اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال و افعال اور احوال بھی شامل ہیں، کیونکہ وہ بھی قرآن کی عملی تفسیر تھے، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : (( كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ )) [ مسند أحمد :6؍91، ح : ۲۴۶۵۵ ] ’’قرآن آپ کا خلق تھا۔‘‘ یعنی قرآن آپ کی طبعی عادت بن چکا تھا کہ آپ کا ہر کام خود بخود قرآن مجید کے مطابق ہوتا تھا۔ اس لیے امام شافعی اور دوسرے ائمہ نے بہت سے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ’’ الْحِكْمَةِ ‘‘ سے مراد سنت ہے۔ بعض لوگ اس پر یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی طرح سنت کی بھی تلاوت ہوتی تھی، مگر یہ شبہ بے کار ہے، کیونکہ تلاوت کے لفظ کو صرف قرآن کی تلاوت کے لیے خاص کرنا بعد کی اصطلاح ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ سورۂ بقرہ میں یہی لفظ جادو کے ان الفاظ کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے، فرمایا : ﴿ وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۰۲ ] ’’اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے۔‘‘ ظاہر ہے وہاں تلاوت سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو سناتے تھے۔ ویسے یاد کرنے کرانے کے لیے حدیث رسول پڑھنا بھی کارِ ثواب ہے اور حدیث حفظ کرنے والے کو اسے بار بار پڑھنا پڑتا ہے۔ ہاں، پڑھنے پڑھنے میں فرق ضرور ہے۔ 4۔ یہ آیت ازواج مطہرات کے اہلِ بیت ہونے کی بھی واضح دلیل ہے، کیونکہ ’’ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو ان کے گھر کہا گیا ہے۔ 5۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا : ’’ لَطِيْفًا ‘‘ کے لفظ میں بے حد مہربانی کے ساتھ باریک بینی اور خفیہ طریقے سے کسی کام کے ادا کرنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں یہ دونوں صفات ذکر کرنے میں کئی باتوں کی طرف اشارہ ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کا تمام عورتوں میں سے ازواج مطہرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے چننا، ان کی طہارت کا اہتمام کرنا، انھیں علم و عمل کا کمال حاصل کرنے کا موقع عطا کرنا، اس کے مخفی سے مخفی امور سے واقف ہونے، اس کے نہایت مہربان ہونے اور ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہونے کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے اس نے انھیں اس کا اہل سمجھ کر اس مرتبے کے لیے منتخب فرمایا۔ ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ چونکہ یہ آیات ازواج مطہرات کے خرچے میں اضافے کے مطالبے پر نازل ہوئیں، لہٰذا مطلب یہ ہے کہ حالات بظاہر تمھارے لیے مشکل ہیں، لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کو ترجیح دو گی تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ دنیا کی خوش حالی بھی کچھ دور نہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ایسے باریک طریقوں سے وجود میں لے آتا ہے جو کسی کی سوچ میں بھی نہیں آسکتے۔ وہ لطیف بھی ہے اور پوری طرح باخبر بھی، اس نے ان لوگوں کو جو دنیا کی زیب و زینت سے بے نیاز تھے، زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنا دیا اور جو دنیا کے طلب گار تھے اور جن کی ساری تگ و دو ہی دنیا کے لیے تھی انھیں غلام بنا دیا۔