سورة الأحزاب - آیت 24

لِّيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِن شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا بدلہ دے اور منافقوں کو عذاب دے اگر چاہے، یا ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلاشبہ اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لِيَجْزِيَ اللّٰهُ الصّٰدِقِيْنَ بِصِدْقِهِمْ: جنگ احزاب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بیان فرمایا، مثلاً مشرکین کے لشکروں کی آمد، مدینہ کا محاصرہ، مسلمانوں پر شدید خوف کا طاری ہونا،منافقوں کے طعنے اور بزدلی کی باتیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ثابت قدمی اور قربانی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال کردار۔ اب ان سب باتوں کی حکمت بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسلمانوں کو ان پریشانیوں کے بغیر ہی نعمتوں سے نواز دیتا، مگر اس نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ وہ چاہتا تھا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کا امتحان لے اور جو لوگ اپنے امتحان میں سچے اور پکے ثابت ہوں انھیں ان کی سچائی کا بدلا دے اور یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَ الصّٰبِرِيْنَ وَ نَبْلُوَاۡ اَخْبَارَكُمْ ﴾ [ محمد : ۳۱ ] ’’ اور ہم ضرور ہی تمھیں آزمائیں گے،یہاں تک کہ تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور تمھارے حالات جانچ لیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰى مَا اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ﴾ [ آل عمران : ۱۷۹ ] ’’اللہ کبھی ایسا نہیں کہ ایمان والوں کو اس حال پر چھوڑ دے جس پر تم ہو، یہاں تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے۔‘‘ وَ يُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو منافقین کو عذاب دے، چاہے تو نہ دے، کیونکہ کفر پر مرنے والوں کے لیے عذاب تو وہ خود طے کر چکا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ چاہے تو عہد توڑنے والے منافقین کو موت سے پہلے توبہ کی توفیق نہ دے اور انھیں ان کے نفاق کی سزا دے اور چاہے تو توبہ کی توفیق دے کر ان کی توبہ قبول فرمائے۔ دلیل اس کی ’’ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ منافق جو آگ کے درک اسفل کے حق دار بن چکے، وہ توبہ کیسے کریں گے؟ فرمایا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بے حد مغفرت والا، یعنی گناہوں پر پردہ ڈالنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ وہ جس پر چاہے مہربان ہو کر اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دے، پھر اپنی مزید رحمت کے ساتھ نواز دے۔ اس میں عہد توڑنے والے منافقین کے لیے توبہ کی ترغیب اور ان کی توبہ کی قبولیت کی بشارت ہے۔