وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا
اور اگر اس (شہر) میں ان پر اس کے کناروں سے داخل ہوا جاتا، پھر ان سے فتنہ برپا کرنے کا سوال کیا جاتا تو یقیناً وہ اسے (عمل میں) لے آتے اور اس میں دیر نہ کرتے مگر تھوڑی۔
وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ....: ’’ دُخِلَتْ ‘‘ کی ضمیر ’’مدینہ‘‘ کی طرف جا رہی ہے، یعنی ’’ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمُ الْمَدِيْنَةُ مِنْ جِهَاتِهَا أَيْ وَلَوْ دَخَلَ الْأَحْزَابُ عَلَيْهِمُ الْمَدِيْنَةَ۔‘‘ ’’ الْفِتْنَةَ ‘‘ سے مراد کفرو شرک اور مسلمانوں کے خلا ف جنگ ہے، یعنی اگر کفار شہر میں داخل ہو کر ان منافقین کو دعوت دیتے کہ آؤ دوبارہ ہمارے ساتھ کفر میں واپس آ جاؤ اور ہم سے مل کر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے لڑو تو وہ فوراً ان کی پیش کش قبول کرتے اور ذرا دیر نہ کرتے۔