وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔
وَ لَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى ....: یعنی ہم اس بڑے عذاب سے پہلے، جس کا ابھی ذکر ہوا انھیں ایک ادنیٰ عذاب ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ باز آجائیں۔ مراد آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا کا عذاب ہے، جیسا کہ طبری نے معتبر سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل کیا ہے : ’’اس سے مراد دنیا کی مصیبتیں، بیماریاں اور آزمائشیں ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ بندوں کو مبتلا کرتا ہے، تاکہ وہ توبہ کر لیں۔‘‘ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اَوَ لَا يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ﴾ [ التوبۃ : ۱۲۶ ] ’’اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ بے شک وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ﴾ [ الروم : ۴۱ ]’’خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آ جائیں۔‘‘ کفار مکہ کے لیے اس سے مراد وہ قتل بھی ہے جس سے وہ جنگ بدر میں دو چار ہوئے اور وہ قحط سالی بھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے ان پر مسلط ہوئی۔بعض مفسرین نے ’’ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى ‘‘ سے مراد عذابِ قبر لیا ہے، مگر آیت کے آخری الفاظ ’’ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ‘‘ (تاکہ وہ پلٹ آئیں) سے ظاہرہے کہ یہ تفسیر درست نہیں، کیونکہ عذابِ قبر کے بعد توبہ اور واپس پلٹنے کا کوئی موقع نہیں۔