اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی ہر چیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، اس کے سواتمھارا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
1۔ اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ : قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے حق ہونے کے بیان کے بعد اس اہم ترین مسئلے کا ذکر فرمایا جس کی طرف دعوت دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمام رسولوں کو بھیجا گیا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دلائل کا بیان۔ چنانچہ فرمایا : ’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو، زمین کو اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔‘‘ ان دنوں سے مراد معروف دن نہیں، کیونکہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے ان کا وجود ہی نہیں تھا، ہو سکتا ہے وہ دن ہزاروں یا لاکھوں سال کے ہوں۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) اور حٰم السجدہ (۹ تا ۱۲)۔ 2۔ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴)، یونس (۳) اور طٰہٰ (۵)۔ 3۔ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا شَفِيْعٍ : یہ اس باطل خیال کا رد ہے کہ بے شک آسمان و زمین اور ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، مگر کچھ ہستیاں ایسی زبردست یا اللہ کی محبوب ہیں جو سفارش کر کے اس کی گرفت سے چھڑا لیں گی۔ فرمایا، یاد رکھو! اگر وہ تمھیں عذاب دینا چاہے تو اس کے مقابلے میں تمھارا کوئی دوست نہیں ہو گا جو اس کے عذاب سے تمھیں چھڑا سکے اور نہ کوئی سفارشی، جو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کی جرأت کر سکے۔ 4۔ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ : یعنی کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے کہ عرش سے فرش تک اس کی حکومت ہے، اس کے پیغام اور پیغمبر کو جھٹلا کر کہاں جاؤ گے؟