مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
نہیں ہے تمھارا پیدا کرنا اور نہ تمھارا اٹھانا مگر ایک جان کی طرح۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
1۔ مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ : اللہ تعالیٰ کے کمال علم و قدرت کے بیان کے بعد کفار کی اس بات کی تردید فرمائی کہ ہم دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے؟ چنانچہ فرمایا، تم سب کو پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کرنے کی طرح ہی ہے، کیونکہ وہ تمام چیزوں کو کلمہ ’’كُنْ‘‘ سے موجود کر دیتا ہے، پھر تمھیں دوبارہ زندہ کر دینا اس کے لیے کیا مشکل ہے؟ دیکھیے سورۂ یٰس (۲۲ اور ۷۹)۔ 2۔ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ : ان دو صفات کی مناسبت یہاں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اربوں انسانوں کی پکار بیک وقت سن لیتا ہے۔ ایک انسان کی دعا سننا اسے دوسرے کی دعا سننے سے غافل یا قاصر نہیں بنا سکتا۔ اس کے لیے ایک انسان کی ایک وقت میں دعا سننا اور اربوں انسانوں کی اسی وقت دعا سننا برابر ہے۔ پھر اس کی مخلوق صرف انسان ہی نہیں بلکہ لاکھوں انواع میں اور اربوں کھربوں کی تعداد میں ہے، وہ ان سب کی دعا اور فریاد سنتا ہے اور ایک چیونٹی کی بھی فریاد اسی طرح سنتا ہے جیسے ایک انسان کی۔ پھر معاملہ سننے تک محدود نہیں بلکہ سننے کے ساتھ وہ اپنی ساری مخلوق کو دیکھ بھی رہا ہے۔ ان کے ظاہری اور باطنی حالات سے واقف بھی ہے، انھیں رزق بھی پہنچا رہا ہے اور ان کی جملہ ضروریات بھی پوری کر رہا ہے۔ یہی حال اس کی تخلیق کا ہے، اس کا ایک انسان کو پیدا کرنا بھی ایسے ہی ہے جیسے سب انسانوں کو پیدا کرنا۔ وہ ایک ہی وقت میں لاکھوں انسانوں اور اربوں دوسری مخلوق کو اس وقت بھی پیدا کر رہا ہے اور مرنے کے بعد قیامت کے دن دوبارہ تمام انسانوں کو ایسے ہی ایک وقت میں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا۔ اس کے لیے ایک انسان کے دوبارہ پیدا کرنے اور سب انسانوں کے دوبارہ پیدا کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ (کیلانی)