سورة آل عمران - آیت 55

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ ! بے شک میں تجھے قبض کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا اور ان لوگوں کو جنھوں نے تیری پیروی کی، قیامت کے دن تک ان لوگوں کے اوپر کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا، پھر میری ہی طرف تمھارا لوٹ کر آنا ہے تو میں تمھارے درمیان اس چیز کے بارے میں فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ:’’ وَفَي يَفِيْ‘‘ کا معنی پورا ہونا یا پورا کرنا ہے۔ ’’اِسْتَوْفَي‘‘ اور ’’ تَوَفّٰي‘‘ کا معنی پورا لے لینا ہے۔ ’’ اِسْتَوْفَيْتُ مِنْهُ وَ تَوَفَّيْتُ‘‘ کا معنی ہے ’’میں نے اس سے پورا حق لے لیا۔‘‘ اس بنا پر ”مُتَوَفِّيْكَ“ کا معنی ہے ’’میں تمہیں پورا لینے والا ہوں ‘‘ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو روح و بدن دونوں کے ساتھ اٹھا لیا جاتا۔ بعض نے اس کا معنی ’’(وقت پر) فوت کرنے والا ہوں ‘‘ کیا ہے اور میں نے ترجمہ کیا ہے ’’قبض کرنے والا ہوں۔‘‘ اس میں دونوں معنی آ جاتے ہیں۔ یوں تو قرآن میں ’’ تَوَفِّيْ ‘‘ کا معنی سلا دینا بھی آیا ہے، جیسا کہ فرمایا:﴿وَ هُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ ﴾ [الأنعام:۶۰ ]’’اور وہی ہے جو تمہیں رات کو قبض کر لیتا (سلا دیتا) ہے‘‘ اور فرمایا:﴿اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ﴾ [الزمر:۴۲ ] ’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’ اَلْجَوَابُ الصَّحِيْحُ ‘‘ میں لکھا ہے کہ لغتِ عرب میں ’’تَوَفِّيْ‘‘ کے معنی ’’اِسْتِيْفَاءٌ ‘‘ اور قبض کے آئے ہیں اور یہ نیند کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور موت کی صورت میں بھی اور یہ ’’ تَوَفِّي الرُّوْحِ مَعَ الْبَدَنِ جَمِيْعًا ‘‘ (روح اور بدن دونوں کو لے لینے) کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس آیت میں ﴿مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ ﴾ سے عیسیٰ علیہ السلام کا مع جسم آسمان کی طرف اٹھایا جانا مراد ہے، جیسا کہ فرمایا:﴿وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ ﴾ ’’اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور سولی کی نفی فرمائی اور ’’تَوَفِّيْ‘‘ کا لفظ استعمال کیے بغیر فرمایا:﴿بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ﴾ [النساء:۱۵۸] ’’بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔‘‘ وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا:عیسیٰ علیہ السلام کے اول تابع نصاریٰ تھے، ان کے بعد مسلمان ہیں، سو یہ ہمیشہ غالب رہے۔ (موضح) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان سے مراد صرف نصاریٰ بھی ہو سکتے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ یہود جو مسیح علیہ السلام کے منکر ہیں ان پر نصاریٰ ہمیشہ غالب رہیں گے۔ (ابن کثیر) اس سے مراد یہ بھی ہے کہ قیامت کے قریب جب مسیح علیہ السلام تشریف لائیں گے تو ان کے پیروکار مسلمان سب کفار پر غالب ہوں گے۔