اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ
اللہ وہ ہے جس نے تمھیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنا دیا، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔
1۔ اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ....: مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’انسان کا اصل تو مٹی سے ہے، پھر نطفے سے، پھر جمے ہوئے خون کے ٹکڑے سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے، پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں، پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے، پھر روح پھونکی جاتی ہے، پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف و نحیف ہو کر نکلتا ہے، پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے، پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے، پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے، آخر نشوونما موقوف ہو جاتی ہے۔ اب قُویٰ پھر مضمحل ہونا شروع ہوتے ہیں، طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں، ادھیڑ عمر کو پہنچتا ہے، پھر بوڑھا ہو جاتا ہے۔ طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے کہ ہمت پست ہے۔ دیکھنا، سننا، چلنا، پھرنا، اٹھنا، اچکنا، پکڑنا غرض ہر طاقت گھٹ جاتی ہے، رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہو جاتی ہیں، بدن پر جھریاں پڑ جاتی ہیں، رخسار پچک جاتے ہیں، دانت ٹوٹ جاتے ہیں اور بال سفید ہو جاتے ہیں، یہ ہے قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنیٰ کرشمے ہیں۔ ساری مخلوق اس کی غلام، وہ سب کا مالک۔ وہ عالم و قادر، نہ اس کا ساکسی کا علم، نہ اس جیسی کسی کی قدرت۔‘‘ (ابن کثیر) 2۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد فرمایا ہے کہ جو اللہ انسان کو عدم سے نکال کر وجود میں لا سکتا ہے، پھر ضعف کی حالت سے بڑھا کر قوت اور جوانی تک پہنچاتا ہے، پھر قوت و جوانی سے ضعف اور بڑھاپے کی طرف لا کر موت تک پہنچا دیتا ہے، اس کے لیے اسے دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں، خصوصاً جب وہ علیم بھی ہے، اسے کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کے ہر ذرّے کا علم ہے کہ کہاں ہے اور قدیر بھی ہے کہ اس کا وجود و عدم دونوں اس کی قدرت کا نتیجہ ہیں۔ وہ جب چاہے مردہ اجزا کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ 3۔ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ : یعنی ضعف سے قوت کی طرف اور قوت سے ضعف اور بڑھاپے کی طرف انسان کا یہ سفر اندھے اور بے شعور مادے کے خود بخود ہونے والے تغیر ات نہیں، بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، کسی کو جنین ہی کی حالت میں ختم کر دیتا ہے، کسی کو پیدا ہوتے ہی، کسی کو بچپن میں بلا لیتا ہے، کسی کو جوانی تک پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے بڑھاپے تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس کی مشیّت، کمال علم اور کمال قدرت کے مطابق ہوتا ہے۔ 4۔ ابن عاشور فرماتے ہیں : ’’لفظ ’’ ضُعْفٍ ‘‘ آیت میں ضاد کے ضمّہ کے ساتھ ہے اور یہ زیادہ فصیح اور لغتِ قریش ہے اور اس کے ضاد پر فتحہ بھی جائز ہے اور یہ لغتِ تمیم ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ’’الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ‘‘ (یعنی ضاد کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ’’ مِنْ ضُعْفٍ ‘‘ (یعنی ضاد کے ضمہ کے ساتھ) پڑھایا۔‘‘ [ ترمذي، القراءات، باب ومن سورۃ الروم : ۲۹۳۶، وقال الألباني حسن۔ أبو داؤد، الحروف و القراءات، باب : ۳۹۷۸ ] جمہور نے تینوں جگہ ’’ ضُعْفٍ ‘‘ کا لفظ ضاد کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور عاصم اور حمزہ نے اسے ضاد کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یقیناً ان کے پاس اس کا ثبوت ہے جو ابن عمر رضی اللہ عنھما کی روایت کے خلاف ہے۔ اس قراء ت اور ابن عمر رضی اللہ عنھما کی حدیث کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضاد کے ضمہ کے ساتھ پڑھا، کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی لغت ہے اور جو دوسرے قبیلے کی لغت میں پڑھے اس کے لیے فتحہ کے ساتھ پڑھنے کی رخصت ہے اور جس کی کوئی خاص لغت نہ ہو اسے دونوں طرح پڑھنے کا اختیار ہے۔‘‘ (التحریر و التنویر) یاد رہے کہ اگرچہ عاصم کی قراء ت ضاد کے فتحہ کے ساتھ ہے مگر ان کے ایک راوی حفص نے (جن کی روایت ہمارے ہاں رائج ہے) ابن عمر رضی اللہ عنھما کی حدیث کی وجہ سے اس کے ضاد کے ضمہ کو ترجیح دی ہے۔