وَإِن كَانُوا مِن قَبْلِ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْهِم مِّن قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ
حالانکہ بے شک وہ اس سے پہلے کہ ان پر برسائی جائے، اس سے پہلے یقیناً ناامید تھے۔
وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْهِمْ ....: واؤ حالیہ ہے اور ’’ وَ اِنْ كَانُوْا ‘‘ اصل میں ’’إِنَّهُمْ كَانُوْا‘‘ ہے۔’’ لَمُبْلِسِيْنَ ‘‘ پر آنے والے لام کی وجہ سے ’’إِنَّ‘‘ کو ’’ اِنْ ‘‘ سے بدل دیا اور ’’هُمْ‘‘ کو حذف کر دیا۔’’ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ ‘‘ کے بعد ’’ مِنْ قَبْلِهٖ ‘‘ دوبارہ لانے کا مطلب تاکید ہے، یعنی وہ بارش اترنے سے پہلے، اس کے عین پہلے تک بالکل ناامید تھے۔ اس میں لمبی ناامیدی کا نہایت تیزی کے ساتھ فوری خوشی میں بدلنے کا بیان ہے، یعنی وہ بالکل ناامید تھے، بارش اترتے ہی خوشیاں منانے لگے۔ اس سے اللہ کی قدرت معلوم ہوتی ہے کہ لمحہ بھر میں دنیا کی حالت بدل جاتی ہے، کچھ دیر پہلے سب کے چہرے اُترے ہوئے تھے اور اب بارش کے بعد ہر طرف خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔