مَن كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَنفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ
جو کفر کرے سو اس کا کفر اسی پر ہے اور جو کوئی نیک عمل کرے سو وہ اپنے ہی لیے سامان تیار کر رہے ہیں۔
مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗ ....: اس میں جدا جدا ہونے والے دونوں فریقوں کا حال بیان فرمایا کہ جس نے کفر کیا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہو گا اور جو نیک عمل کریں گے وہ اپنے ہی لیے آرام کی جگہ تیار کر رہے ہیں، یا سامان تیار کر رہے ہیں قبر میں، جنت میں بلکہ دنیا میں بھی۔ ’’ كَفَرَ ‘‘ کے ساتھ دوسرے برے اعمال کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ کفر کے بعد کسی عمل کا اعتبار ہی نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ قَدِمْنَا اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا ﴾ [ الفرقان : ۲۳ ] ’’اور ہم اس کی طرف آئیں گے جو انھوں نے کوئی بھی عمل کیا ہو گا تو اسے بکھرا ہوا غبار بنا دیں گے۔‘‘ اور کفر کے مقابلے میں ایمان کے بجائے عمل صالح فرمایا، کیونکہ ایمان بھی عمل صالح میں شامل ہے اور اس لیے کہ عمل صالح کی اہمیت واضح ہو جائے۔