ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں۔
1۔ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ....: خشکی سے مراد زمین کے میدان، پہاڑ اور صحرا وغیرہ ہیں اور سمندر سے مراد سمندری جزیرے، ساحلوں پر آباد شہر اور بستیاں اور سمندروں میں سفر کرنے والے جہاز اور کشتیاں ہیں۔ فساد (خرابی) سے مراد ہر آفت اور مصیبت ہے، چاہے وہ جنگ و جدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا قحط، بیماری، فصلوں کی تباہی، بدحالی، سیلاب اور زلزلے وغیرہ کی صورت میں ہو۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے بحر و بر میں جو فتنہ و فساد بپا ہے اور آسمان کے نیچے جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں، یہ سب شرک کی وجہ سے ہیں۔ جب سے لوگوں نے توحید اور دین فطرت کو چھوڑ کر شرک کی راہیں اختیار کی ہیں اس وقت سے یہ ظلم و فساد بھی بڑھ گیا ہے۔ شرک جیسے قولی اور اعتقادی ہوتا ہے اسی طرح شرک عملی بھی ہے، جو فسق و فجور اور معاصی کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس بات کی تعیین کہ آیت میں ’’ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ‘‘ (جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا) سے مراد شرک ہے، اگلی آیت کے ساتھ ہوتی ہے، فرمایا : ﴿ قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلُ كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْرِكِيْنَ ﴾ [ الروم : ۴۲ ] ’’کہہ دے زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے، ان کے اکثر مشرک تھے۔‘‘ ان اقوام کی دوسری خرابیاں، جن کا قرآن نے ذکر فرمایا ہے اور جن کی وجہ سے ان پر عذاب آیا، ان کا اصل بھی شرک تھا، اگر وہ ایک اللہ پر ایمان لاتے تو ہر گز ایسے گناہوں کے اجتماعی طور پر مرتکب نہ ہوتے۔ 2۔ اس کے برعکس جس معاشرے کی بنیاد اللہ کی توحید اور اس کے احکام و حدود کی اقامت پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۶۵، ۶۶) اور اعراف (۹۶)۔ 3۔ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا ....: پوری سزا تو آخرت میں ملے گی، مگر یہ تھوڑے سے عذاب کا نمونہ ہے، تاکہ لوگ شرک اور نافرمانی چھوڑ کر توحید اور فرماں برداری کی راہ اختیار کر لیں۔ دیکھیے سورۂ سجدہ (۲۱) اور توبہ (۱۲۶)۔