سورة الروم - آیت 36

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے، اس کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تو اچانک وہ ناامید ہوجاتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَا....: اس آیت میں لوگوں کو رحمت چکھانے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، یعنی ’’جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں‘‘ اور برائی پہنچنے کا سبب ان کے ہاتھوں کی کمائی یعنی ان کے اعمال کو قرار دیا ہے۔ اس کی تفسیر کے لیے سورۂ نساء کی آیت (۷۹) : ﴿ مَا اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَ مَا اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ﴾کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔ اسی طرح رحمت چکھانے کے لیے ’’ اِذَا ‘‘ (جب) کا لفظ فرمایا اور برائی پہنچنے کے لیے ’’ اِنْ ‘‘ (اگر) کا لفظ فرمایا جو شک کے لیے آتا ہے۔ اس میں رحمت کے مقابلے میں تکلیف کے بہت ہی کم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ (رازی) 2۔ آیت میں انسان کی ناشکری، تنگ ظرفی اور تھڑدلی کا بیان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی تھوڑی سی نعمت بھی (’’ رَحْمَةً‘‘ کی تنوین تنکیر و تقلیل کے لیے ہے) عطا ہوتی ہے تو وہ اس پر پھول جاتا ہے۔ اس کی چال ڈھال اور ہر حرکت سے اس کی نخوت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس وقت نہ وہ خالق کو خاطر میں لاتا ہے نہ اس کی مخلوق کو اور نہ اسے یہ یاد رہتا ہے کہ یہ نعمت دائمی نہیں بلکہ ہر حال میں چھننے والی ہے اور اگر اپنے ہی اعمال کی وجہ سے کوئی برائی آ پہنچے تو اچانک (فوراً ہی) ناامید ہو جاتا ہے اور ہمت ہار بیٹھتا ہے کہ اب کوئی نہیں جو میری مصیبت ٹال سکے۔ یہ کافر کی حالت ہے کہ سختی کے وقت مایوس ہو جاتا ہے اور عیش و آرام کے وقت تکبر و غرور کرنے لگتا ہے۔ بہت سے کمزور ایمان والوں کا بھی یہی حال ہے۔ مگر صحیح مومن کا حال اس کے برعکس ہے، اسے عیش و آرام میسر ہوتا ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور جب مصیبت یا تنگی پہنچتی ہے تو صبر و تحمل سے کام لیتا ہے۔ (دیکھیے سورۂ ہود : ۹تا ۱۱) صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ )) [ مسلم، الزھد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹ ] ’’مومن کے ہر حال پر تعجب ہے، کیونکہ اس کا ہر معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے توصبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔‘‘