وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے تمھارا دن اور رات میں سونا اور تمھارا اس کے فضل سے (حصہ) تلاش کرنا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سنتے ہیں۔
1۔ وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمْ بِالَّيْلِ وَ النَّهَارِ : یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، اس کے کمالِ قدرت اوراس کے تمھیں دوبارہ زندہ کرنے پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی تمھارا رات اور دن میں سونا ہے۔ جس کے ساتھ بے اختیار تمھاری ہر سرگرمی ختم اور تمھارے حواس ظاہری کے تمام اعمال بند ہو جاتے ہیں اور تمھیں اپنے گرد و پیش کی کچھ خبر نہیں رہتی۔ اس سے پہلے کام کاج اور حرکت و محنت کی وجہ سے تمھارے جسم میں جو ٹوٹ پھوٹ اور تھکاوٹ ہوئی تھی، نیند عطا کرنے والا مالک نیند کے دوران جسم کی مرمت کر کے اور تھکاوٹ دور کر کے دوبارہ کام کاج کے قابل بنا کر تمھیں پھر بیدار کر دیتا ہے۔ جس طرح نیند اس کی نشانی ہے، بیداری اور رات دن میں اس کے فضل کی تلاش بھی اس کی نشانی ہے۔ دونوں اسی کی تخلیق ہیں، کسی کا ان میں ذرّہ بھر دخل نہیں، بلکہ مخلوق تو ان کی حقیقت ہی سے نا آشنا ہے کہ نیند کیا چیز ہے، کیسے آتی ہے اور کیسے ختم ہو جاتی ہے!؟ پھر دن رات کئی دفعہ سونے اور جاگنے کا یہ عمل باربار موت و حیات کا عملی نمونہ ہے۔ پھر بھی تمھیں اصرار ہے کہ ہر روز کئی بار موت و حیات کے مراحل سے گزارنے والا مالک تمھارے اعمال کے محاسبے اور جزا و سزا کے لیے تمھیں دوبارہ زندہ نہیں کر سکے گا۔ 2۔ نیند کی حقیقت اس سے زیادہ کسی کو معلوم نہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی ہے، فرمایا : ﴿ اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰى اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠ ﴾ [ الزمر : ۴۲ ] ’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نیند موت ہے اور بیداری حیات اور دونوں کی حقیقت روح کے آنے جانے کو سمجھنے پر موقوف ہے۔ اور روح کیا ہے؟ اس کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۸۵ ] ’’اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔‘‘ 3۔ روس میں کمیونزم کے عروج کے زمانے میں جب اللہ تعالیٰ کی منکر، مادہ پرست اور دنیا کی ظالم ترین جماعت کمیونسٹ پارٹی مزدوروں سے کھیتوں اور کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ کام لینے کی نئی سے نئی صورت سوچتی رہتی تھی، اس وقت پارٹی کے راہ نماؤں نے سوچا کہ مزدور بہت سا وقت سو کر ضائع کر دیتے ہیں، چنانچہ انھوں نے سائنس دانوں کے ذمے لگایا کہ وہ تحقیق کریں کہ ان کا نیند میں صرف ہونے والا وقت زیادہ سے زیادہ کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ کئی سالوں کی تحقیق کے بعد اس کانتیجہ جو انھوں نے بیان کیا وہ یہ تھا کہ انسان کے لیے نیند بہت ضروری ہے، کیونکہ اس کے دوران اس کے ٹوٹے پھوٹے خلیات دوبارہ بنتے ہیں اور وہ دوبارہ کام کاج کے قابل ہو جاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تعمیر و مرمت اور تازگی کا یہ عمل نیند کے دوران صرف ایک لمحے میں پورا ہوجاتا ہے، مگر وہ لمحہ بعض اوقات نیند کی ابتدا میں آتا ہے، کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمبی سے لمبی نیند میں بھی وہ لمحہ نہیں آتا اور انسان بیدار ہوتا ہے تو اسی طرح تھکا ماندہ اور ٹوٹا پھوٹا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ لمحہ آجانے کی وجہ سے نیند کی ایک جھپکی کے ساتھ ہی اس کی ساری تھکن کافور ہو جاتی ہے۔ ان سائنس دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ انسان اس لمحے کو اپنی گرفت میں لانے سے عاجز ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نشانی کے صرف ایک معمولی سے حصے کا اعتراف ہے، جسے اس نے ’’ وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمْ بِالَّيْلِ وَ النَّهَارِ ‘‘ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ 4۔ عام طور پر قرآن مجید میں رات کو نیند اور آرام کے لیے اور دن کو تلاش معاش کے لیے قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا ﴾ [ النمل : ۸۶ ] ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات کو بنایا، تاکہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ جَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا (10) وَّ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا ﴾ [ النبا : ۱۰، ۱۱ ] ’’اور ہم نے رات کو لباس بنایا۔ اور ہم نے دن کو روزی کمانے کے لیے بنایا۔‘‘ (مزید دیکھیے بنی اسرائیل : ۱۲) یہ عام معمول کا بیان ہے، مگر انسان رات کے علاوہ دن کو بھی سو جاتا ہے اور تلاش معاش دن کے علاوہ رات کو بھی کر لیتا ہے، اس لیے اس آیت میں رات اور دن دونوں میں نیند کو اور اللہ کے فضل کی تلاش کو اپنی نشانیوں میں سے نشانی قرار دیا۔ 5۔ وَ ابْتِغَآؤُكُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ: اس میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ رزق، جو تم تلاش کرتے ہو، وہ تمھاری محنت کانتیجہ نہیں، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، ورنہ کوئی محنت مشقت کرنے والا فقیر نہ رہے اور محنت مشقت نہ کرنے والا کوئی شخص غنی نہ ہو۔ 6۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ : یعنی نیند اور بیداری کی نشانی سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر اور مرنے کے بعد زندگی پر کافی استدلال صرف تجربے سے یا عقل سے یا غور و فکر سے ممکن نہیں، بلکہ یہ ان چیزوں سے ہے جن کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا رسول انھیں بیان کرے اور سننے والے انھیں سن کر دل میں جگہ دیں۔ اس لیے فرمایا کہ اس ایک نشانی میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کی بات سنتے ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اپنے سونے کا احوال نظر نہیں آتا، سو لوگوں کی زبانی سنتے ہیں۔‘‘ (موضح) یہ ’’ يَسْمَعُوْنَ ‘‘ کا لفظ اختیار کرنے کا ایک اور نکتہ ہے۔