سورة الروم - آیت 20

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر اچانک تم بشر ہو، جو پھیل رہے ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ....: یہاں سے چھ آیات تک ایسی نشانیوں یعنی عجیب و غریب چیزوں کا بیان ہے جو ایک تو اوپر کے سلسلہ کلام کے مطابق اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کا محاسبہ کرے اور انھیں جزا و سزا دے۔ دوسرے وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ کائنات نہ خود بنی ہے، نہ خودبخود چل رہی ہے اور نہ ہی ایک سے زیادہ ہستیوں نے اسے بنایا ہے، بلکہ اسے اکیلے اللہ نے پیدا فرمایا ہے، وہی اسے چلا رہا ہے، اس کارخانہ ہستی میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ یہ چھ کی چھ آیات ’’ وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ ‘‘ کے الفاظ سے شروع ہو تی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے عجائب قدرت میں سے یہ چند آیات ہیں، تمام آیات کا شمار ہی نہیں، مگر سمجھنے اور ایمان لانے کے لیے یہی نشانیاں کافی ہیں۔ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ....: ’’ تُرَابٍ ‘‘ پر تنوین تقلیل و تحقیر کی ہے، اس لیے ترجمہ ’’حقیر مٹی‘‘ کیا گیا ہے۔ اپنی نشانیوں میں سب سے پہلے انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا، کیونکہ انسان دوسری تمام چیزوں سے زیادہ اپنے آپ کو جانتا ہے اور اسے اپنے وجود پر غور کسی بھی دوسری چیز پر غور سے زیادہ آسان ہے۔ ’’ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ‘‘ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کرنے سے مراد یہ ہو کہ تمھارے باپ آدم کو حقیر مٹی سے پیدا کیا۔ ’’ ثُمَّ ‘‘ (پھر) کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اسے اکیلے ہی کو بنا کر نہیں چھوڑ دیا بلکہ نطفے اور بیضے کے ملاپ کے ساتھ اس کے توالد و تناسل کا ایسا عظیم الشان سلسلہ جاری کیا کہ تم بشر کی صورت میں ساری زمین پر پھیل رہے ہو اور سیکڑوں ہزاروں سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ لفظ ’’ اِذَا ‘‘ (اچانک) عموماً ’’فاء‘‘ کے بعد آتا ہے، یہاں ’’ ثُمَّ ‘‘ کے بعد آیا ہے، جس میں تاخیر کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس میں اس تاخیر اور ان مراحل کی طرف بھی اشارہ ہے جو آدم علیہ السلام کی مٹی سے تخلیق اور اس کے بعد کے انسانوں کے وجود میں آنے کے دوران پیش آتے ہیں، مثلاً نطفہ، علقہ اور مضغہ وغیرہ۔ دوسرا مطلب یہ کہ ’’تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا‘‘ سے مراد یہ ہو کہ اس نے تم سب کو حقیر مٹی سے پیدا کیا، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا، جو مردہ ہے، جس میں زندگی کا نام و نشان نہیں۔ ’’مٹی‘‘ کا مزاج سرد خشک ہے، وہ حرارت سے خالی ہے اور رطوبت سے بھی، جن سے حیات وجود میں آتی ہے۔ تمھارا وجود اور ان تمام اشیاء کا وجود جن سے تمھاری زندگی قائم ہے، اسی بے جان مٹی سے قائم ہے۔ کیونکہ انسان کی پیدائش نطفہ سے ہے، جو ظاہر ہے غذا سے بنتا ہے اور غذا نباتات سے بنتی ہے یا حیوانات کے گوشت، دودھ اور گھی سے، ان حیوانات کی زندگی بھی نباتات یا ایسی چیزوں پر موقوف ہے جو زمین سے پیدا ہوتی ہیں۔ غرض تمھارا وجود اس مردہ مٹی سے ہے جس سے پیدا ہونے کے مرحلے گزارنے کے بعد تم اچانک بشر کی صورت میں زمین میں پھیل رہے ہو۔ ’’اچانک‘‘ اس لیے فرمایا کہ تخلیق کے تمام مراحل لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہوتے ہیں، تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد ماں کے پیٹ سے بچے اور انڈے سے چوزے کا ظہور اچانک ہوتا ہے۔ ان مراحل کے لیے دیکھیے سورۂ حج (۵) اور سورۂ مومنون (۱۲، ۱۳)۔ تَنْتَشِرُوْنَ : یعنی بے جان مٹی سے پیدا کر کے تمھیں ایسی بھرپور زندگی عطا فرمائی کہ تم پوری زمین میں پھیل گئے۔ تم نے محل، قلعے، آبادیاں اور شہر تعمیر کیے، خشکی، سمندر اور فضا میں سفر کے ذریعے سے زمین کا کونا کونا چھان مارا۔ شہروں میں دیکھو یا صحراؤں میں، جنگلوں میں دیکھو یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر یا سمندروں کی وسعتوں میں، ہر جگہ انسان کا وجود نظر آجائے گا۔ یہ سب اس وحدہ لا شریک لہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔