وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ
اور اسی کے لیے سب تعریف ہے آسمانوں اور زمین میں اور پچھلے پہر اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو۔
1۔ وَ لَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ....: اس آیت میں ’’ وَ عَشِيًّا وَّ حِيْنَ تُظْهِرُوْنَ ‘‘ کا تعلق ’’ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ ‘‘ کے ساتھ ہے۔ مسلسل عبارت یوں ہے : ’’ فَسُبْحَانَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِيْنَ تُصْبِحُوْنَ وَ عَشِيًّا وَّ حِيْنَ تُظْهِرُوْنَ۔‘‘ ’’ وَ لَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ کا جملہ درمیان میں معترضہ ہے، یعنی صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ہر خوبی کا مالک بھی وہی ہے، آسمانوں میں اور زمین میں جہاں بھی خوبی کی کوئی بات ہے اس خوبی کا مالک اور اس پر حمد کا حق دار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سو تسبیح کے ساتھ تحمید کا فریضہ بھی ادا کرو۔ 2۔ نمازوں کے یہ پانچوں اوقات نظام عالم میں روزانہ برپا ہونے والی پانچ تبدیلیوں کے مطابق رکھے گئے ہیں۔ شام کو آفتاب عالم تاب غروب ہوتا ہے، دن کی حکومت ختم ہوتی ہے، اس وقت نماز مغرب کا حکم ہے، پھر عشاء تک شفق کا راج ہوتا ہے۔ شفق غروب ہونے کے ساتھ سورج کا بقیہ اثر بھی ختم ہو کر رات کا اندھیرا مکمل ہو جاتا ہے، جس پر عشاء کی نماز کا حکم ہے۔ طلوع فجر کے ساتھ رات اپنا دامن سمیٹتی ہے، اس وقت فجر کی نماز کا حکم ہے۔ پھر سورج کی روشنی اور گرمی جب اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو ظہر کا حکم ہے اور آفتاب کی حرارت اور روشنی کمال کے بعد زردی میں بدلنا شروع ہوتی ہے تو عصر کی نماز کا حکم ہے۔ گویا ہر انقلاب عالم پر انقلاب لانے والے کے حضور سجدہ ریز ہونے کا حکم ہے۔