سورة الروم - آیت 9

أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے۔ وہ ان سے قوت میں زیادہ سخت تھے اور انھوں نے زمین کو پھاڑا اور اسے آباد کیا اس سے زیادہ جو انھوں نے اسے آباد کیا ہے اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلیں لے کر آئے تو اللہ ایسانہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا ....: آخرت کے حق ہونے کے دلائل ذکر کرنے کے بعد اس کی تکذیب کرنے والی پہلی اقوام کے برے انجام سے ڈرایا ہے۔ کیونکہ ان اقوام کے آثار مکہ مکرمہ کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ عاد و ثمود ہوں یا اصحابِ مدین اور قومِ لوط ہو یا قومِ سبا یا قومِ فرعون، مکہ مکرمہ کے لوگ تجارت کے لیے ان تمام علاقوں میں جایا کرتے تھے۔ ’’ الْاَرْضِ ‘‘ سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقے ہیں، جن کا قرآن میں جا بجا ذکر ہے۔ یعنی یہ لوگ جو اللہ کی وحدانیت، اس کے رسولوں کی رسالت اور آخرت کو جھٹلانے والے ہیں، کیا اس زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان جھٹلانے والے لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے؟ مطلب یہ ہے کہ یقیناً یہ لوگ زمین میں چلے پھرے ہیں اور انھوں نے سب کچھ دیکھا ہے، مگر عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ انھیں کچھ نصیحت ہوتی کہ وہ لوگ قوت کے لحاظ سے ان سے بہت زیادہ تھے۔ ان کے قد کاٹھ اور ان کی جسمانی، مالی اور فوجی قوت ان سے کہیں زیادہ تھی اور انھوں نے زمین کو ان سے زیادہ پھاڑا تھا۔ زمین کو پھاڑنے میں زراعت، معدنیات نکالنا اور آب پاشی کا نظام قائم کرنا سبھی کچھ آ جاتا ہے اور انھوں نے زمین کو اس سے کہیں زیادہ آباد کیا جو ان اہلِ مکہ نے آباد کیا ہے۔ انھوں نے بڑی بڑی عمارتیں، کارخانے اور پانی کے بند بنائے۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح معجزے اور دلائل لے کر آئے، مگر انھوں نے انھیں جھٹلا دیا، تو اللہ کے عذاب کا نشانہ بنے اور اب تک ان کی بستیوں کے نشانات ان کی بربادی کی داستان سنا رہے ہیں۔ كَانُوْا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّ اَثَارُوا الْاَرْضَ....: اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ پہلے لوگ ان سے قوت میں زیادہ تھے اور انھوں نے زمین کو پھاڑا اور اسے آباد کیا، اس سے زیادہ جو انھوں نے اسے آباد کیا ہے، اس میں کفار (اہلِ مکہ) پر چوٹ بھی ہے، کیونکہ اہل مکہ کا اہلِ مصر، اہلِ شام اور اہلِ یمن کے ساتھ زمین کی زراعت اور آباد کاری میں کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ مکہ میں نہ قابل زراعت زمین تھی، نہ انھوں نے زمین کو پھاڑا اور نہ ہی ان کے پاس آب پاشی کا کوئی نظام تھا۔ جبکہ مصر، شام اور یمن زراعت اور دوسرے شعبوں میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ سو اہلِ مکہ کو بھی زراعت اور زمین کی آباد کاری کرنے والے قرار دینے میں اور پہلی قوموں کو ان سے زیادہ ترقی یافتہ قرار دینے میں ان کے ساتھ ایک طرح کا مذاق بھی ہے کہ ترقی کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو پیش نظر رکھیں اور دیکھیں کہ جب اتنی زبردست ترقی یافتہ قومیں اپنے رسولوں کو جھٹلانے کی پاداش میں ہلاک کر دی گئیں تو ان بے چاروں کی کیا اوقات ہے۔ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ....: یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی اقوام کو تباہ کیا ان سب میں قدر مشترک ظلم تھا اور ظلم کی بنیاد آخرت سے انکار ہے، کیونکہ جو قوم آخرت پر یقین رکھتی ہو اور اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس ہو تو وہ ظلم کرہی نہیں سکتی۔ سو اگر آخرت سے انکار کی وجہ سے ان پر عذاب آیا تو اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ ان کے اپنے ظلم کا نتیجہ تھا اور اگر اہلِ مکہ پر اپنے رسول کو اور آخرت کو جھٹلانے کے نتیجے میں عذاب آیا تو ان کے اپنے ظلم کی وجہ ہی سے آئے گا۔