سورة الروم - آیت 8

أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا انھوں نے اپنے دلوں میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اسے پیدا نہیں کیا مگر حق اور ایک مقرر وقت کے ساتھ اور بے شک بہت سے لوگ یقیناً اپنے رب سے ملنے ہی کے منکر ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ ....: اس میں دو احتمال ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ’’ اَوَ لَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ ‘‘ ایک مستقل جملہ ہے اور’’ مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ دوسرا جملہ ہے۔ یعنی کیا ان لوگوں نے جو اللہ کے رسولوں اور اس کی ملاقات کو جھٹلاتے ہیں اپنی جانوں میں غور نہیں کیا، کیونکہ ان کی جانوں میں کئی نشانیاں ہیں، جن کے ساتھ وہ جان سکتے ہیں کہ جس ذات نے انھیں عدم سے وجود بخشا ہے وہ اس کے بعد انھیں دوبارہ بھی زندہ کر ے گا اور یہ کہ وہ ذات جس نے انھیں ایک سے دوسری کئی حالتوں میں منتقل کیا، چنانچہ نطفے سے علقہ میں، پھر مضغہ میں، پھر ذی روح انسان میں، پھر بچے کی صورت میں، پھر جوان، پھر بوڑھے، پھر کھوسٹ بوڑھے کی شکل میں منتقل کیا۔ آیا اس ذات کے لائق ہے کہ انھیں شتربے مہار چھوڑ دے، نہ انھیں کوئی حکم دے، نہ کسی چیز سے منع کرے، نہ انھیں کوئی ثواب ہو نہ عقاب ہو۔ نہیں، بلکہ ہر حال میں وہ مختلف حالتوں سے منتقل ہوتے ہوئے اپنے اعمال کے محاسبے کے لیے اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ (دیکھیے سورۂ انشقاق : ۶ اور ۱۶ تا ۱۹) (عبد الرحمن سعدی) دوسرا احتمال یہ ہے کہ’’ فِيْ اَنْفُسِهِمْ ‘‘ ’’ اَوَ لَمْ يَتَفَكَّرُوْا ‘‘ کا ظرف ہے اور جملہ’’ بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّى ‘‘ پر مکمل ہو رہا ہے۔ یعنی کیا ان لوگوں نے اپنی جانوں یعنی اپنے دلوں میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان دونوں کے درمیان کی تمام اشیاء کو نہ عبث اور بے مقصد پیدا فرمایا ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہنے کے لیے بنایا ہے، بلکہ انھیں اپنی کمال حکمت کے مطابق حق کے ساتھ یعنی حقیقی مقصد (آزمائش) کے لیے پیدا فرمایا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ﴾ [ھود : ۷ ] ’’تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے عمل میں کون بہتر ہے۔‘‘ اور ایک مقررہ مدت کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، جہاں پہنچ کر ہر حال میں اس سلسلے کو ختم ہونا ہے اور وہ مقررہ مدت قیام قیامت، حساب اور ثواب و عتاب کا وقت ہے۔ یہی بات اس آیت میں فرمائی ہے : ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ﴾ [ المؤمنون : ۱۱۵ ] ’’تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟‘‘ دیکھیے یہاں اللہ تعالیٰ نے کیسے واضح فرمایا کہ اگر وہ مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد ایسے ہی چھوڑ دے اور انھیں دوبارہ زندہ کر کے اپنے پاس لے جا کر حساب نہ کرے تو اس کا انسانوں کو پیدا کرنا عبث ہو گا۔ (شنقیطی) آیت کی تفسیر کا پہلا احتمال بھی صحیح ہے مگر یہ دوسرا زیادہ واضح ہے، اس لیے ترجمہ اسی احتمال کے مطابق کیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں کہ زمین و آسمان کی پیدائش بے مقصد نہیں بلکہ حق ہی کے ساتھ ہے اور یہ کہ قیامت ہر حال میں قائم ہو گی، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اکٹھی بیان ہوئی ہیں۔ دیکھیے سورۂ دخان (۳۸ تا ۴۰) اور سورۂ حجر (۸۵)۔ وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ : اور بہت سے لوگ آخرت کے اور دوبارہ زندہ ہو کر اپنے رب کی ملاقات کے اور حساب کتاب کے منکر ہیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے دلوں میں غور ہی نہیں کیا۔ اگر وہ اپنے دلوں میں زمین و آسمان پر اور ان کے درمیان کی بے شمار عجیب و غریب اشیاء (دیکھیے بقرہ : ۱۶۴) پر غور کرتے تو انھیں اپنے رب کی ملاقات کا یقین ہو جاتا۔