أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَكْفُرُونَ
اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ بے شک ہم نے ایک حرم امن والا بنا دیا ہے، جب کہ لوگ ان کے گرد سے اچک لیے جاتے ہیں، تو کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں؟
اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا ....: اہل مکہ کو اس سے پہلے سمندری سفر میں خوف میں مبتلا کرنے کے بعد امن عطا کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا تھا، اب خشکی کے اندر کسی خوف میں مبتلا کیے بغیر اس وقت امن عطا کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا جب پورا عرب اس نعمت سے محروم تھا۔’’ اَوَ لَمْ يَرَوْا ‘‘ میں واؤ عطف اصل میں ہمزہ استفہام سے پہلے ہے، مگر چونکہ ہمزہ استفہام شروع میں آتا ہے، اس لیے واؤ کو بعد میں کر دیا۔ اس لیے واؤ کا ترجمہ ہمزہ سے پہلے کیا گیا ہے ’’اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا… ۔‘‘ یعنی جس وقت ان کے ارد گرد پورے جزیرۂ عرب کی یہ حالت ہے کہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال، کسی کو کچھ خبر نہیں کہ اسے کب اٹھا لیا جائے گا۔ ان حالات میں اہلِ مکہ کو حرم کی وجہ سے مکہ میں بھی امن ہے، حتیٰ کہ کوئی حرم میں اپنے باپ کے قاتل کو دیکھ لے تو اسے کچھ نہیں کہتا اور پھر سردی اور گرمی میں دور دراز کے سفروں میں بھی حرم کے با شندے ہونے کی وجہ سے انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ (دیکھیے سورۂ قریش کی تفسیر) کیا اس کے باوجود وہ باطل معبودوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں؟ مزید دیکھیے سورۂ قصص (۵۷)۔