فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ
پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس حال میں کہ اسی کے لیے عبادت کو خالص کرنے والے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اچانک وہ شریک بنا رہے ہوتے ہیں۔
فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ ....: اس سے پہلی آیات میں مشرکین مکہ پر ان کے اعتراف کے ساتھ حجت قائم کی تھی کہ آسمان و زمین کا خالق، سورج و چاند کو مسخر کرنے والا اور آسمان سے پانی برساکر مردہ زمین کو زندہ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، یعنی یہ مان کر پھر اس کے ساتھ شریک بنانے کا کیا جواز ہے؟ اس آیت میں ان پر اس بات کے ساتھ حجت قائم کی ہے کہ سمندری سفر میں جب ان کے بحری جہاز طوفان کی لپیٹ میں آتے ہیں تو وہ اپنی فطرت میں چھپی ہوئی توحید کے ہاتھوں مجبور ہو کر اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی بندگی خالص کرتے ہوئے اس اکیلے ہی کو پکارتے ہیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ انھیں طوفان سے بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو اپنی ہی بات کے خلاف شرک کرنے لگتے ہیں۔ بتائیے اس سے زیادہ ناشکری کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کی ضروریاتِ زندگی تو سب اللہ مہیا کرے اور جب جان پر بن جائے تو اس مصیبت سے نجات بھی اللہ دے، لیکن جب آسودہ حالی کا وقت آئے تو انسان نہ صرف اللہ کو بھول جائے بلکہ اس کے اختیارات میں دوسروں کو شریک بنانے لگے؟ یہ نبوی دور کے مشرکوں کا حال تھا، آج کل کے مسلمان مشرک ان سے بھی بدتر ہیں کہ یہ مصیبت کے وقت بھی غیراللہ کو پکارتے اور ان کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ صرف مذہبی مشرکوں کا حال نہیں بلکہ بڑے بڑے دہریے جب کسی مشکل میں ہر طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں تو اس ذات واحد کو پکارتے ہیں اور جب بچ نکلتے ہیں تو پھر مالک کا انکار کرنے لگتے ہیں، آخر اتنا بڑا تضاد کیوں ہے؟ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۶۳، ۶۴)، یونس (۲۲، ۲۳)، بنی اسرائیل ( ۶۷) اور لقمان (۳۲)۔