وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور دنیا کی یہ زندگی نہیں ہے مگر ایک دل لگی اور کھیل، اور بے شک آخری گھر، یقیناً وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔
1۔ وَ مَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا....: ’’ الدُّنْيَا ‘‘ ’’اَلْأَدْنٰي‘‘ کی مؤنث ہے، قریب، گھٹیا۔ اس کے مقابلے میں ’’ الْاٰخِرَةَ ‘‘ ہے۔ ’’ لَهْوٌ ‘‘ وہ چیز جو ضروری کاموں سے دل کو غافل کر دے، یعنی دل لگی، جیسے گانا بجانا وغیرہ، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ [لقمان : ۶] ’’اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے۔‘‘ ’’ لَعِبٌ ‘‘ ’’کھیل۔‘‘ اس جملے میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا بے وقعت ہونا چار طرح سے بیان ہوا ہے، سب سے پہلے ’’ هٰذِهِ ‘‘ کا لفظ حقارت کے اظہار کے لیے ہے، یعنی ’’یہ‘‘ دنیا کی زندگی۔ جیسا کہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی تحقیر کے لیے کہا تھا : ﴿ اَمْ اَنَا خَيْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِيْ هُوَ مَهِيْنٌ ﴾ [الزخرف : ۵۲ ] ’’بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں، وہ جو حقیر ہے۔‘‘ دوسرا ’’ الدُّنْيَا‘‘ کا لفظ دنایت اور گھٹیا پن پر دلالت کر رہا ہے، تیسرا ’’ لَهْوٌ ‘‘ (دل لگی) اور چوتھا ’’ لَعِبٌ ‘‘ (کھیل)، یعنی اس حقیر دنیا کی زندگی کی حقیقت دل لگی اور کھیل کے سوا اور کچھ نہیں، جس طرح کوئی شخص کچھ وقت کے لیے گا بجا کر اور کھیل کود کر گھر چلا جائے۔ یہاں کوئی بادشاہ ہے یا وزیر، تاجر ہے یا صنعت کار، مالک ہے یا مزدور، اگر کسی بھی ایسے کام میں مصروف ہے جو قیامت کے دن کے لیے کار آمد نہیں تو سمجھ لیجیے وہ محض دل لگی اور کھیل تماشے میں مصروف ہے اور اس کے تمام ساتھی اس کھیل تماشے کا حصہ ہیں۔ اس تماشے میں کوئی بادشاہ ہے، کوئی وزیر ہے اور کوئی کچھ اور۔ انھیں عیش و عشرت کے جتنے سامان میسر ہیں، عورتیں ہوں یا بیٹے، سونے چاندی کے خزانے ہوں یا اعلیٰ نسل کے گھوڑے، ہر قسم کے چوپائے ہوں یا کھیتیاں اور باغات، سب اس کھیل کے کھلونے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ کھیل ختم ہو جاتا ہے اور کھیل کا ہر کردار اسی بے سروسامانی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے جس کے ساتھ وہ یہاں آیا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ ان کھلونوں کے ساتھ ساٹھ یا ستر یا سو برس دل بہلا لے، آخر کار اسے یہ سب کچھ چھوڑ کر موت کے دروازے سے گزر کر اس جہاں میں پہنچنا ہے جہاں کی زندگی دائمی اور ابدی ہے۔ بڑا ہی بد نصیب ہے وہ شخص جو اس کھیل میں مصروف رہے اور اس دائمی زندگی کی فکر نہ کرے۔ 2۔ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ: ’’ الدَّارَ‘‘ موصوف ہے اور ’’ الْاٰخِرَةَ ‘‘ اس کی صفت، آخری گھر۔ یہاں ایک لفظ محذوف ہے، یعنی’’إِنَّ حَيَاةَ الدَّارِ الْآخِرَةِ لَهِيَ الْحَيَوَانُ‘‘ ’’ الْحَيَوَانُ ‘‘ مصدر ہے، جس طرح ’’ اَلْحَيَاةُ ‘‘ مصدر ہے۔ ’’ الْحَيَوَانُ ‘‘ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے ’’زندگی‘‘ کے مفہوم میں مبالغہ پایا جاتا ہے، پھر ’’ الْحَيَوَانُ ‘‘ پر ’’الف لام ‘‘ کمال کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اس لیے’’ الْحَيَوَانُ ‘‘ کا ترجمہ ’’اصل زندگی‘‘ کیا گیا ہے۔ یعنی یقیناً آخری گھر کی زندگی ہی اصل زندگی ہے، جسے کبھی زوال نہیں، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ یہاں کی چند روزہ زندگی سے زیادہ آخری زندگی کی فکر کرے، کیونکہ وہ اصل اور دائمی ہے۔ دنیا کے کھیل تماشے میں غرق ہو کر عاقبت کو بھول نہ بیٹھے، بلکہ یہاں رہ کر وہاں کی تیاری کرے۔ 3۔ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ: اگر وہ جانتے ہوتے تو فانی کو باقی پر ترجیح نہ دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : (( لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ مَا سَقٰی كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ )) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في ھوان الدنیا علی اللّٰہ عزوجل : ۲۳۲۰، عن سھل بن سعد رضی اللّٰہ عنہ ، وقال الترمذي و الألباني صحیح ] ’’اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر ہوتی، تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ نہ پلاتا۔‘‘