سورة العنكبوت - آیت 60

وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کتنے ہی چلنے والے (جاندار) ہیں جو اپنا رزق نہیں اٹھاتے، اللہ انھیں رزق دیتا ہے اور تمھیں بھی اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَاَيِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ....: ہجرت کرتے ہوئے جان کی فکر کے بعد ذہن میں آنے والی سب سے پہلی بات یہ ہوتی ہے کہ وطن سے نکلے تو کھائیں گے کہاں سے؟ اللہ تعالیٰ نے روزی کی طرف سے تسلی دلائی کہ رزق کسی جگہ کے ساتھ خاص نہیں، اللہ تعالیٰ کا رزق ساری مخلوق کے لیے عام ہے، جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو۔ بلکہ جن لوگوں نے ہجرت کی ان کا رزق کثرت، وسعت اور عمدگی میں پہلے سے کہیں زیادہ ہوگیا، چنانچہ وہ تھوڑی مدت ہی میں تمام علاقوں میں شہروں کے حاکم بن گئے۔ اس لیے فرمایا، کتنے ہی جانور ہیں جو اپنی روزی ساتھ لیے نہیں پھرتے، ان کے گھروں میں کل کی خوراک نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ ان کے ہر نئے دن کے لیے نئی روزی کا بندوبست کرتا ہے اور ہر مخلوق کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، اسے بہم پہنچاتا ہے، حتیٰ کہ زمین کی تہ میں چیونٹیوں کو، ہوا میں پرندوں کو اور پانی میں مچھلیوں کو ان کی ضرورت کی ہر چیز وافر عطا فرماتا ہے۔ (دیکھیے سورۂ ہود : ۶) ’’ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ‘‘ وہ اپنی مخلوق کی ہر بات سنتا بھی ہے جانتا بھی ہے، اس لیے وہ ہر ایک کی روزی اس تک پہنچا دیتا ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : (( لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُوْنَ عَلَی اللّٰهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَ تَرُوْحُ بِطَانًا )) [ ترمذي، الزھد، باب في التوکل علی اللّٰہ: ۲۳۴۴۔ ابن ماجہ : ۴۱۶۴، و صححہ الألباني ] ’’اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسا کرو جیسے اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو تمھیں اسی طرح رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتے ہیں۔‘‘