يَوْمَ يَغْشَاهُمُ الْعَذَابُ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَيَقُولُ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
جس دن عذاب انھیں ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ڈھانپ لے گا اور (اللہ) فرمائے گا چکھو جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
1۔ يَوْمَ يَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ: یہ جہنم کے گھیرنے کی تفصیل ہے کہ عذاب کافروں کو ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے یعنی ہر طرف سے گھیر لے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ﴾ [الأعراف : ۴۱ ] ’’ان کے لیے جہنم ہی کا بچھونا اور ان کے اوپر کے لحاف ہوں گے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَ مِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ﴾ [ الزمر : ۱۶ ] ’’ان کے لیے ان کے اوپر سے آگ کے سائبان ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی سائبان ہوں گے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا حِيْنَ لَا يَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ ﴾ [ الأنبیاء : ۳۹ ] ’’کاش! وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اس وقت کو جان لیں جب وہ نہ اپنے چہروں سے آگ کو روک سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں سے۔‘‘ 2۔ وَ يَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ: یعنی آگ کے عذاب کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کا معنوی عذاب مزید ہو گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ ﴾ [ القمر : ۴۸ ] ’’جس دن وہ آگ میں اپنے چہروں پر گھسیٹے جائیں گے، چکھو آگ کا چھونا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا (13) هٰذِهِ النَّارُ الَّتِيْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ (14) اَفَسِحْرٌ هٰذَا اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ (15) اِصْلَوْهَا فَاصْبِرُوْا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا سَوَآءٌ عَلَيْكُمْ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ [ الطور : ۱۳ تا ۱۶ ] ’’جس دن انھیں جہنم کی آگ کی طرف دھکیلا جائے گا، سخت دھکیلا جانا۔ یہی ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے تھے۔ تو کیا یہ جادو ہے، یا تم نہیں دیکھ رہے؟ اس میں داخل ہو جاؤ، پھر صبر کرو یا صبر نہ کرو، تم پر برابر ہے، تمھیں صرف اسی کا بدلا دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘ ’’ يَقُوْلُ ‘‘ کا فاعل اللہ تعالیٰ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے یہ بات کہے گا اور عذاب کا فرشتہ بھی، یا پھر خود عذاب اس کا فاعل ہے جو ان سے کہے گا کہ اپنے اعمال کی سزا چکھو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ آتَاهُ اللّٰهُ مَالاً فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيْبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ، يَعْنِيْ بِشِدْقَيْهِ، ثُمَّ يَقُوْلُ أَنَا مَالُكَ، أَنَا كَنْزُكَ ثُمَّ تَلاَ: ﴿ وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ ﴾ )) [ آل عمران : ۱۸۰ )) [ بخاري، الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ ....: ۱۴۰۳، عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی، تو قیامت کے دن وہ مال اس کے لیے ایک گنجے شکل کا سانپ بنا دیا جائے گا، جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اس کے گلے میں طوق بنا دیا جائے گا۔ پھر وہ اس کی باچھوں کو پکڑے گا، پھر کہے گا، میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ﴾ [ آل عمران : ۱۸۰ ] ’’اور وہ لوگ جو اس میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، ہر گز گمان نہ کریں کہ وہ ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے، عنقریب قیامت کے دن انھیں اس چیز کا طوق پہنایا جائے گا جس میں انھوں نے بخل کیا اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی میراث ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پورا با خبر ہے۔‘‘