وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آ جاتا اور یقیناً وہ ان پر ضرور اچانک آئے گا اور وہ شعور نہ رکھتے ہوں گے۔
1۔ وَ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے اور آپ کا مذاق اڑانے کی ایک اور صورت ہے جو کفار نے اختیار کی کہ اگر ہم باطل پر ہیں تو ہم پر فوراً عذاب لے آؤ۔ جس عذاب سے تم ڈراتے ہو وہ کب آئے گا؟ اس عذاب سے ان کی مراد دنیا میں عذاب تھی۔ 2۔ وَ لَوْ لَا اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُ: فرمایا، اگر دنیا میں ان پر آنے والے عذاب کا اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر نہ کر دیا ہوتا، جو آگے پیچھے نہیں ہو سکتا، تو ان کے مطالبے کے وقت ہی عذاب آ جاتا۔ 3۔ وَ لَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ: اس امت میں پہلی امتوں کی طرح آسمانی عذاب کے بجائے مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب دینا طے کیا گیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴ ] ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔‘‘ فرمایا، دنیا میں ان پر عذاب ضرور آئے گا مگر ان کے مطالبے پر فوراً نہیں، بلکہ مقرر وقت پر آئے گا اور اچانک آئے گا، جب ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بدر اور بعد کی جنگوں حتیٰ کہ فتح مکہ میں پورا ہو گیا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ اس امت کا عذاب یہی تھا، مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہونا، پکڑے جانا۔ سو فتح مکہ میں مکے کے لوگ بے خبر رہے کہ حضرت کا لشکر سر پر آکھڑا ہوا۔‘‘ (موضح) 4۔ ’’ اَجَلٌ مُّسَمًّى ‘‘ ( مقرر مدت) سے مراد موت اور پھر آخرت بھی ہو سکتی ہے، جس کا سلسلہ مرنے کے فوراً بعد شروع ہو جائے گا اور موت کے متعلق کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب آجائے۔ مفسر ابن جزی نے فرمایا، یہ معنی زیادہ ظاہر ہے۔