وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور انھوں نے کہا اس پر اس کے رب کی طرف سے کسی قسم کی نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں، کہہ دے نشانیاں تو سب اللہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو صرف ایک کھلم کھلا ڈرانے والاہوں۔
1۔ وَ قَالُوْا لَوْ لَا اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ: قرآن اور پیغمبر کے حق ہونے کے دلائل کے سامنے جب مشرکین لاجواب ہوجاتے تو عجیب و غریب قسم کے اعتراض اور مطالبے پیش کرتے، جو عناد، تکبر اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایسے چند اعتراض اور ان کے جواب ذکر فرمائے۔ ان میں سے پہلا اعتراض یہ تھا کہ اس پیغمبر پر کوئی نشانیاں کیوں نازل نہیں کی گئیں؟ اس سے ان کی مراد صالح علیہ السلام کی اونٹنی اور موسیٰ علیہ السلام کے عصا جیسے معجزات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دیں نشانیاں اور معجزات تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس اور اسی کے اختیار میں ہیں، نہ یہ میرے قبضے میں ہے کہ جو معجزہ تم طلب کرو وہی دکھلادیا کروں اور نہ یہ میری ذمہ داری ہے۔ میری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تمھیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام سے آگاہ کرتا رہوں اور ڈراتا رہوں۔ 2۔ حفاظ کرام یاد رکھیں پورے قرآن میں ’’ لَوْ لَا اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ‘‘ صرف اسی مقام پر ہے۔ دوسرے تمام مقامات پر ’’نُزِّلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ ‘‘ یا ’’ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ ‘‘ واحد کے لفظ کے ساتھ ہی ہے۔