وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، اس وقت باطل والے لوگ ضرور شک کرتے۔
1۔ وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ ....: یعنی اے نبی! وحی کے ذریعے سے آنے والی جس کتاب کی تلاوت کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس کے نزول سے پہلے آپ اپنی قوم میں چالیس سال کا عرصہ رہے ہیں، نہ آپ کسی بھی طرح کی لکھی ہوئی کوئی چیز پڑھتے تھے نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے، بلکہ محض اُمی تھے۔ وہ سب لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں جن میں آپ کی زندگی گزری، بلکہ بہت تھوڑے آدمی چھوڑ کر ان کا اپنا حال بھی یہی ہے کہ وہ اُمی ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ ﴾ [ الجمعۃ : ۲ ] ’’وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا۔‘‘ اور پہلی کتابوں میں بھی آپ کی یہی صفت مذکور ہے، فرمایا : ﴿ اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ ﴾ [ الأعراف : ۱۵۷ ] ’’وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو اُمی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔‘‘ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمی ّ ہونے کو آپ کے دعویٔ نبوت میں سچا ہونے کی دلیل ٹھہرایا ہے۔ دیکھیے سورۂ قصص (۸۶) اور یونس(۱۶) ابن کثیر فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ (وفات تک) یہی حال رہا، آپ نہ پڑھ سکتے تھے نہ ہی ایک سطر یا ایک حرف اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے، بلکہ آپ کے کئی کاتب تھے جو وحی اور مختلف علاقوں کی طرف خطوط وغیرہ لکھتے تھے۔ بعض لوگوں نے ’’ مِنْ قَبْلِهٖ ‘‘ کے لفظ سے دلیل لی ہے کہ نبوت سے پہلے تو آپ فی الواقع لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، مگر نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ ان حضرات نے عقیدت میں غلو کی وجہ سے یہ بات کہی ہے، یہ نہیں سوچا کہ ایک شخص ان پڑھ ہوکر سارے جہاں کا استاذ بن جائے، یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا یہ کہ کوئی عالم فاضل اور پڑھا لکھا شخص کوئی کتاب تصنیف کر کے لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت تک اُمی ّ ہونے کی دلیل صلح حدیبیہ کے معاہدے کا واقعہ ہے، جس کا صلح نامہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے تحریر کیا تھا۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: (( فَكَتَبَ هٰذَا مَا قَاضٰی عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰهِ فَقَالُوْا لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ، وَلٰكِنِ اكْتُبْ هٰذَا مَا قَاضٰی عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ، فَقَالَ أَنَا وَاللّٰهِ ! مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ وَأَنَا وَاللّٰهِ ! رَسُوْلُ اللّٰهِ قَالَ وَكَانَ لاَ يَكْتُبُ قَالَ فَقَالَ لِعَلِيٍّ امْحُ رَسُوْلَ اللّٰهِ فَقَالَ عَلِيٌّ وَاللّٰهِ ! لاَ أَمْحَاهُ أَبَدًا قَالَ فَأَرِنِيْهِ قَالَ فَأَرَاهُ إِيَّاهُ، فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ )) [ بخاري، الجزیۃ، باب المصالحۃ علی ثلاثۃ أیام ....: ۳۱۸۴ ] ’’علی رضی اللہ عنہ نے لکھا : ’’یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے معاہدہ کیاہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو (خانہ کعبہ سے) نہ روکتے، بلکہ ہم آپ کی بیعت کر لیتے، لیکن لکھو کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے معاہدہ کیا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! میں محمد بن عبد اللہ ہوں اور اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ ہوں۔‘‘ براء نے فرمایا : ’’اور آپ لکھتے نہیں تھے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’رسول اللہ (کا لفظ) مٹا دو۔‘‘ علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں مٹاؤں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر وہ مجھے دکھاؤ۔‘‘ انھوں نے وہ لفظ آپ کو دکھایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا۔‘‘ یہ واقعہ ذوالقعدہ چھ ہجری کا ہے جس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار سال اور چند ماہ زندہ رہے، اس میں صراحت ہے ’’وَكَانَ لَا يَكْتُبُ‘‘ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھتے نہیں تھے) اب وہ کون سی روایت ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنا سیکھ لیا تھا؟ حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ بخاری کی بعض روایات میں جو آیا ہے: (( ثُمَّ أَخَذَ فَكَتَبَ )) (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکڑا اور لکھا) یہ دوسری روایت پر محمول ہے جس میں ہے: (( ثُمَّ أَمَرَ فَكَتَبَ )) ’’ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو انھوں نے لکھا۔‘‘ ابن کثیر فرماتے ہیں، بعض لوگوں نے جو حدیث بیان کی ہے: (( إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ حَتّٰی تَعَلَّمَ الْكِتَابَةَ )) ’’کہ آپ فوت نہیں ہوئے حتیٰ کہ آپ نے لکھنا سیکھ لیا‘‘ تو یہ روایت ضعیف ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اُمی ّ ہونے کا اعتراف فرمایا ہے، ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لاَ نَكْتُبُ وَ لاَ نَحْسُبُ، الشَّهْرُ هٰكَذَا وَ هٰكَذَا يَعْنِيْ مَرَّةً تِسْعَةً وَعِشْرِيْنَ، وَمَرَّةً ثَلاَثِيْنَ )) [ بخاري، الصوم، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا نکتب و لا نحسب : ۱۹۱۳ ] ’’ہم اُمّی لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے، قمری مہینا اتنا ہوتا ہے اور اتنا بھی۔‘‘ یعنی کبھی انتیس (۲۹) دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس (۳۰) دن کا۔‘‘ 2۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کتاب عطا فرمائی جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثل کل عالم بنانے سے عاجز ہے، تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پڑھنا سکھایا نہ لکھنا۔ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ عالم الغیب تھے اور ’’ مَا كَانَ وَ مَا يَكُوْنُ‘‘ (جو ہو چکا اور جو ہو گا) سب جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ 3۔ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ: یعنی اگر آپ پڑھتے ہوتے یا ہاتھ سے لکھتے ہوتے تو باطل پرستوں کے لیے شک کا کوئی موقع ہو سکتا تھا کہ آپ نے اگلی کتابیں پڑھ کر یہ باتیں لکھ لی ہیں، انھی کو آہستہ آہستہ اپنے الفاظ میں سنا رہے ہیں۔ گو اس وقت بھی یہ کہنا غلط ہوتا، کیونکہ کتنا بھی پڑھا لکھا انسان ہو بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسان مل کر اور کل مخلوق کو ساتھ ملاکر بھی اس بے مثال کتاب کی ایک سورت جیسی سورت پیش نہیں کر سکتے، پھر بھی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو جھوٹے لوگوں کو بات بنانے کا موقع مل سکتا تھا۔ جب آپ کا اَن پڑھ ہونا سب کے ہاں مسلّم ہے تو اس شبہ کا موقع بھی نہ رہا۔ 4۔ آپ کے اُمّی ہونے کے باوجود کفار نے یہ بہتان جڑ دیا : ﴿ وَ قَالُوْا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا ﴾ [ الفرقان : ۵ ] ’’اور انھوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھوا لی ہیں، سو وہ پہلے پہر اور پچھلے پہر اس پر پڑھی جاتی ہیں۔‘‘ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو باطل پرستوں کے شکوک و شبہات کا اور بہتان باندھنے کا کیا حال ہوتا۔ 5۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ’’ وَ لَا تَخُطُّهٗ ‘‘ (اور نہ تو اسے لکھتا تھا) کے الفاظ ہی کافی تھے، پھر’’ بِيَمِيْنِكَ ‘‘ (اپنے دائیں ہاتھ سے) فرمانے میں کیا حکمت ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات لکھوانے کو بھی لکھنا کہہ دیا جاتا ہے، مثلاً بعض اوقات خط لکھوا کر بھیجنے والا کہہ دیتا ہے، میں نے فلاں کو خط لکھا ہے۔ اس امکان کو ختم کرنے کے لیے فرمایا : ﴿ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ ﴾ ’’اور نہ تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔‘‘