سورة العنكبوت - آیت 40

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کردیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ....: تو ہم نے ان میں ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے پکڑ لیا۔’’ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ‘‘ ’’حَاصِبًا ‘‘ سخت آندھی جو سنگریزے اور پتھر اڑا کر لائے، یعنی پھر ان میں کچھ وہ تھے جن پر ہم نے پتھراؤ والی آندھی بھیجی۔ اس سے مراد قومِ عاد ہے، جس پر اللہ تعالیٰ نے نہایت ٹھنڈی، سخت تیز اور کنکر و پتھر اڑانے والی آندھی بھیجی جو ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی، جس کے ساتھ تمام کافر اس طرح گرے پڑے تھے جیسے گرے ہوئے کھجور کے درختوں کے تنے ہوں۔ دیکھیے سورۂ حاقہ (۵ تا ۸) اور سورۂ قمر (۱۹، ۲۰) بعض مفسرین نے ان لوگوں سے مراد قوم لوط لی ہے، کیونکہ ان کے متعلق دوسری جگہ فرمایا ہے : ﴿ اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا اِلَّا اٰلَ لُوْطٍ ﴾ [ القمر : ۳۴ ] ’’بے شک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ایک ہوا بھیجی سوائے لوط کے گھر والوں کے۔‘‘ اور غرق ہونے والوں سے مراد نوح علیہ السلام کی قوم اور چیخ والوں سے مراد شعیب علیہ السلام کی قوم لی ہے، مگر ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے کی آیات میں نوح، لوط اور شعیب علیھم السلام کی قوم پر آنے والے عذابوں کا ذکر گزر چکا ہے، یہاں سے عاد اور اس کے بعد کے لوگوں پر آنے والے عذابوں کا ذکر ہے، اس لیے یہاں پتھراؤ والی آندھی سے ہلاک ہونے والوں سے مراد قوم عاد ہی ہے۔ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ : اس سے مراد قومِ ثمود ہے، اگرچہ شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ’’ الصَّيْحَةُ ‘‘ (چیخ) سے ہلاک ہوئی، مگر اس کی گرفت کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ: اس سے مراد قارون ہے، جیسا کہ سورۂ قصص کی آیت (۸۱) میں گزرا۔ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا : اس سے مراد فرعون، ہامان اور ان کی قوم ہے۔ ویسے الفاظ کے عموم کی وجہ سے اگر ’’ حَاصِبًا ‘‘ والوں سے مراد قومِ عاد اور قومِ لوط دونوں اور ’’ الصَّيْحَةُ ‘‘ والوں سے مراد قومِ ثمود اور قومِ شعیب دونوں اور غرق ہونے والوں سے مراد آل فرعون اور قوم نوح دونوں لیے جائیں تو کوئی مانع نہیں۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ ..... :’’ كَانَ ‘‘ استمرار کے لیے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کبھی بھی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے، لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے اور ایسے افعال کا ارتکاب کرتے تھے جن کا نتیجہ ان پر عذاب اور ان کی ہلاکت اور بربادی تھا۔