وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَد تَّبَيَّنَ لَكُم مِّن مَّسَاكِنِهِمْ ۖ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ
اور عاد اور ثمود کو (ہم نے ہلاک کیا) اور یقیناً ان کے رہنے کی کچھ جگہیں تمھارے سامنے آچکی ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے کام مزین کردیے، پس انھیں اصل راستے سے روک دیا، حالانکہ وہ بہت سمجھدار تھے۔
1۔ وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ ....: ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’ان کے رہنے کی کچھ جگہیں تمھارے سامنے آچکی ہیں‘‘ ظاہر ہے کہ ان کے شہر اور آبادیاں تو اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد ہو چکی تھیں، مگر ان کے آثار اور بچے کھچے کچھ گھر عبرت کے سامان کے طور پر باقی تھے۔ عاد اور ثمود دونوں قومیں جن علاقوںمیں آباد تھیں وہ معروف شاہراہوں پر واقع تھے اور عرب کے تمام لوگ ان سے واقف تھے۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ جو اب احقاف، یمن اور حضر موت کے نام سے معروف ہے، قوم عاد کا مسکن تھا اور حجاز کے شمالی حصہ میں رابغ سے عقبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تیماء اور تبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھرا ہوا ہے۔ جس زمانے میں قرآن اترا ہے یقیناً اس وقت وہ آثار اور زیادہ نمایاں ہوں گے۔ 2۔ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ : ’’ أَبْصَرَ يُبْصِرُ‘‘ دیکھنا، صاحب بصیرت ہونا۔ ’’اِسْتَبْصَرَ يَسْتَبْصِرُ‘‘ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میںمبالغہ پیدا ہو گیا، یعنی وہ بہت بصیرت والے، نہایت سمجھ دار تھے، مگر ان کی ساری بصیرت اور ساری سمجھ داری دنیا تک محدود تھی۔ دنیا کے کاموں میں بڑے ہوشیار اور فنکار تھے، اپنے دور کے نہایت ترقی یافتہ اور طاقت ور لوگ تھے۔ لیکن شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے ایسے خوش نما بنائے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کی مت مار دی اور آخرت سے مکمل طور پر بیگانہ کر دیا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اکثر لوگوں کا یہی حال بیان فرمایا ہے : ﴿ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (6) يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ هُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ﴾ [ الروم : ۶، ۷ ] ’’اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ دنیا کی زندگی میں سے ظاہر کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے، وہی غافل ہیں۔‘‘ ان آیات کی تفسیر پر بھی نظر ڈال لیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ وہ بہت سمجھ دار تھے، بڑے صاحب بصیرت تھے، انھیں خوب علم تھا کہ پیغمبر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق ہے، مگر وہ اپنی لذتوں میں ایسے غرق تھے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال ایسے مزین کر دیے تھے کہ وہ جاننے بوجھنے کے باوجود اپنی لذتیں چھوڑ کر راہ حق پر آنے کے لیے تیار نہیں تھے، عناد اور سرکشی کی بنا پر انبیاء کی مخالفت کرتے تھے۔ یہی حال اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کا بیان فرمایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب معجزات لے کر ان کے پاس آئے تو : ﴿ وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَا اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ﴾ [ النمل : ۱۴ ] ’’اور انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کر دیا، حالانکہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کر چکے تھے، پس دیکھ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔‘‘ دونوں تفسیریں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ 3۔ پہلے پیغمبروں اور ان کی امتوں کے ان واقعات میں کفار قریش کے لیے تنبیہ اور عبرت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کی صورت میںان کا انجام بھی پہلے جھٹلانے والوں جیسا ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے تسلی اور حوصلہ ہے کہ آزمائشوں اور مشکلات کے بعد آخر انھی کو کامیابی حاصل ہو گی۔