إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
بے شک اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ کوئی بھی مثال بیان کرے، مچھر کی ہو پھر اس کی جو اس سے اوپر ہے، پس لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے سو جانتے ہیں کہ بے شک ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور رہے وہ جنھوں نے کفر کیا تو وہ کہتے ہیں اللہ نے اس کے ساتھ مثال دینے سے کیا ارادہ کیا ؟ وہ اس کے ساتھ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ بہتوں کو ہدایت دیتا ہے اور وہ اس کے ساتھ فاسقوں کے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔
اس سے پہلے منافقین کی دو مثالیں بیان ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ قرآن مجید میں مکھی [ حج : ۷۳ ] مکڑے [ عنکبوت : ۴۱ ] کتے [ اعراف : ۱۷۶ ] اور گدھے [ جمعہ : ۵ ] کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ کفار اور منافقین جب قرآن کے چیلنج کا جواب نہ دے سکے تو اعتراض جڑ دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ایسی مثالوں کی کیا ضرورت تھی، فرمایا اللہ تعالیٰ کسی بھی چیز کو بطور مثال بیان کر سکتا ہے، یہ کوئی عیب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے حیا کرے، وہ مثال مچھر کی ہو یا پھر اس کی جو اس سے بھی بڑھ کر حقیر ہو، مثلاً مچھر کا پر یا ایک ذرہ۔ مچھر سے بڑھ کرہونے سے مراد اس سے بڑی چیزیں مثلاً مکھی، مکڑا وغیرہ بھی ہو سکتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بڑی سے بڑی مخلوق اللہ کی قدرت پر اور غیر اللہ کی بے بسی پر دلالت کرتی ہے، اسی طرح چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی اللہ کی قدرت کا شاہکار ہے۔ پھر بات سمجھانے کے لیے اگر چھوٹی مخلوق کی مثال زیادہ موزوں ہو تو اس میں حیا کی کیا بات ہے ؟ ”اَنَّهُ الْحَقُّ“ میں ”اَنَّهُ“ کی خبر ”الْحَقُّ“ معرفہ آنے کی وجہ سے ترجمہ ’’وہی ‘‘ کیا گیا ہے۔