سورة العنكبوت - آیت 26

فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو لوط اس پر ایمان لے آیا اور اس نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، یقیناً وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ: ابراہیم علیہ السلام جب آگ سے صحیح سلامت باہر آئے اور انھوں نے یہ نصیحت کی تو لوط علیہ السلام فوراً ہی ان پر ایمان لے آئے اور ان کے تابع فرمان ہو گئے، ان کے سوا کوئی اور ان پر ایمان نہیں لایا۔ فوراً کا مفہوم ’’فاء‘‘ سے نکل رہا ہے۔ 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ عام طور پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے کے لیے ’’آمَنَ بِهِ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، ’’آمَنَ لَهُ‘‘ کا لفظ کسی کی بات کا اعتبار اور یقین کرنے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا : ﴿ وَ مَا اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۷ ] ’’اور تو ہر گز ہمارا اعتبار کرنے والا نہیں، خواہ ہم سچے ہوں۔‘‘ تو یہاں ’’آمَنَ لَهُ‘‘ لانے میں کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب اکثر مفسرین نے تو یہ دیا ہے کہ ایمان لانے اور تصدیق کرنے کے لیے ’’امَنَ بِهِ‘‘ اور ’’آمَنَ لَهُ‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ جادوگروں کے ایمان لانے پر فرعون کا قول اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ ’’اٰمَنْتُمْ لَهٗ ‘‘ نقل فرمایا ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ۷۱) اور بعض جگہ ’’ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ‘‘ (دیکھیے اعراف : ۱۲۳)۔ اس لیے ’’آمَنَ بِهِ‘‘ اور ’’آمَنَ لَهُ‘‘ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ابن جزی صاحب التسہیل نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں ’’آمَنَ‘‘ کے ضمن میں ’’اِنْقَادَ ‘‘ (مطیع ہو گیا) کا مفہوم داخل ہے، اس لیے اس کا صلہ ’’لَهُ‘‘ آیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ’’تو اسی وقت لوط اس کے لیے تابع فرمان ہو گیا۔‘‘ مفسرین میں سے بعض نے لوط علیہ السلام کو ابراہیم کا بھانجا اور اکثر نے بھتیجا بیان کیا ہے، قابل یقین دلیل کسی نے بھی ذکر نہیں فرمائی، البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ لوط علیہ السلام ان کی قوم اور ان کے شہر کے آدمی تھے۔ وَ قَالَ اِنِّيْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ....: ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی پوری قوم میں سے صرف ایک شخص ایمان لایا ہے تو ان سے ناامید ہو کر وہاں سے نکل پڑے، ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور لوط علیہ السلام بھی تھے، کچھ خبر نہ تھی کہاں جانا ہے، اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگے، میں تو وطن چھوڑ کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں۔ وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، وہی میری حفاظت کرے گا، مجھے غلبہ عطا کرے گا اور جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہو گا مجھے لے جائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی قوم سے نجات دلا کر اپنی حفاظت میں خیریت اور سلامتی کے ساتھ سرزمین شام میں پہنچا دیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ نَجَّيْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۷۱] ’’اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سر زمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی ہے۔‘‘ قرآن مجید میں ارض مبارک سے مراد شام کی زمین ہوتی ہے۔ (دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل : ۱) ان کے ہجرت کر جانے کے بعد قوم پر جو گزری اس کے لیے سورۂ انبیاء کی آیات (۷۴، ۷۵) کے حواشی دیکھیے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو نمرود اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا، اس پر بھی جب یہ لوگ سرکشی سے باز نہ آئے تو ان پر مچھروں کا عذاب نازل ہوا۔ یہ مچھر ان لوگوں کا تو سب خون پی گئے، گوشت اور چربی سب کھا گئے، خالی ہڈیاں زمین پر گر پڑیں، مگر نمرود کے دماغ میں ایک مچھر چڑھ گیا جس کے سبب سے اس کے سر پر ایک مدت تک مار پڑتی رہی، اس ذلت کے بعد پھر وہ بھی ہلاک ہو گیا۔ طبری نے یہ بات تابعی زید بن اسلم کے قول سے نقل کی ہے، جس کا اسرائیلی روایت ہونا ظاہر ہے، اس لیے اس پر کسی صورت یقین نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی اسے قرآن کی تفسیر میں بیان کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ’’لا ریب کتاب‘‘ کی تفسیر بھی ’’لا ریب‘‘ ذریعے سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ اس حکایت میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے کئی واعظ کئی سال تک اس مچھر کی وجہ سے نمرود کے سر پر جوتے مرواتے رہتے ہیں، حالانکہ مچھر بے چارے کی کل عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ مسلمان واعظین کی عجائب پسندی نے اس بات کو ایک مسلّمہ حقیقت بنا دیا ہے۔