وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَلِقَائِهِ أُولَٰئِكَ يَئِسُوا مِن رَّحْمَتِي وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے ناامید ہوچکے اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔
وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآىِٕهٖ ....: اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں عام ہے، جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص، نیک اور بد یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا ہے۔ یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ [الأعراف : ۱۵۶ ] ’’اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے۔‘‘ لیکن آخرت چونکہ دار الجزاء ہے۔ انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہو گا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنا ہو گی، جیسے عمل کیے ہوں گے ویسی ہی جزا اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بے لاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک و بد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن و کافر دونوں ہی رحمت الٰہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے اور دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو ان کی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہو گی۔ جیسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے ناامید ہوں گے، یعنی ان کے حصے میں رحمتِ الٰہی نہیں آئے گی۔ سورۂ اعراف میں اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ﴿فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ [ الأعراف : ۱۵۶ ] ’’سو میں یہ (رحمت آخرت میں) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکاۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔‘‘ (احسن البیان) اس سورت کی آیت (۵) : ﴿ مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ ﴾ میں اللہ کی رحمت کی امید رکھنے والوں کا بیان ہے اور زیر تفسیر آیت میں اللہ کی رحمت سے ناامید لوگوں کا بیان ہے۔ نیز دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۸)۔