أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اللہ خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اسے دھرائے گا، بے شک یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
1۔ اَوَ لَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ....: ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین کے مطابق یہاں تک ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم سے خطاب ہے اور یہاں سے آگے اللہ تعالیٰ کا کفار قریش سے خطاب ہے جو ’’ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ‘‘ تک چلا گیا ہے۔ اس کے بعد ’’فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ ‘‘ سے پھر ابراہیم علیہ السلام کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ جبکہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ’’ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ ‘‘ تک یہ سارا کلام ہی ابراہیم علیہ السلام کا ہے۔ مجھے بھی یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس میں نہ سلسلہ کلام توڑنا پڑتا ہے، نہ مطلب میں کوئی خلل آتا ہے، بلکہ ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو توحید کے بعد آخرت کے دلائل سنا رہے ہیں جن کے جواب کا ذکر اس آیت میں ہے : ﴿ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ ....﴾ ویسے ابراہیم علیہ السلام کا یہ خطاب کفار قریش کے بھی عین حسب حال ہے، کیونکہ مشرک اقوام کے عقائد ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ 2۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم اور کفار مکہ دو بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے، ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، دوسری آخرت کا انکار۔ پہلی گمراہی کا رد اوپر کی آیات میں آ چکا ہے، یہ دوسری گمراہی کا رد ہے۔ 3۔ ابراہیم علیہ السلام نے دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت کے لیے خود ان کے وجود کو پیش فرمایا، جس کا مشاہدہ وہ ہر وقت کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس وقت پیدا فرمایا جب کہیں ان کا ذکر تک نہ تھا۔ وجود میں آنے کے بعد وہ سننے دیکھنے والے انسان بن گئے، تو جس نے انھیں شروع میں پیدا فرمایا وہ انھیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے، (’’إِنَّ‘‘ تعلیل کے لیے آتا ہے) کیونکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ هُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ﴾ [ الروم : ۲۷ ] ’’اور وہی ہے جو خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھراسے دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ اسے زیادہ آسان ہے۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’شروع تو دیکھتے ہو، دہرانا اسی سے سمجھ لو۔‘‘