سورة القصص - آیت 88

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو مت پکار، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، مگر اس کا چہرہ، اسی کے لیے حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ: یہ پانچواں حکم ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکار۔ یہ پانچوں حکم ہر انسان کے لیے ہیں، مگر آپ کو مخاطب کرنے سے ایک تو آپ کے لیے ان احکام کی تاکید مراد ہے اور ایک یہ کہ سنایا آپ کو جا رہا ہے مگر خبردار دوسرے تمام لوگوں کو کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان احکام پر عمل کر ہی رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے آپ کو رسالت کے لیے چن لینے کے بعد آپ سے شرک کا امکان ہی نہیں تھا، جیسا کہ دوسری جگہ یہی بات بہت سخت لہجے میں کہی گئی ہے : ﴿ قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّيْ اَعْبُدُ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ (64) وَ لَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَ اِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ﴾ [ الزمر : ۶۴، ۶۵ ] ’’کہہ دے پھر کیا تم مجھے غیراللہ کے بارے میں حکم دیتے ہو کہ میں (ان کی) عبادت کروں اے جاہلو! اور بلاشبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔‘‘ مقصد یہ ہے کہ جب اس مسئلے میں کسی پیغمبر کے لیے کوئی رعایت نہیں تو کسی اور کے لیے کیا ہو گی۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ : یہ وہ جملہ ہے جو اسلام کی دعوت کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید کی اکثر سورتوں کا آغاز بھی شرک کی تردید اور توحید کی دعوت سے ہوتا ہے اور اختتام بھی۔ یہاں اس دعوے کی تین دلیلیں بیان فرمائی ہیں۔ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ : یہ اس بات کی پہلی دلیل ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، کیونکہ وہی ہے جو دائم، باقی اور حی قیوم ہے۔ اس کے سوا سب کو مرنا ہے، سب فانی ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے: (( أَعُوْذُ بِعِزَّتِكَ الَّذِيْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ الَّذِيْ لاَ يَمُوْتُ، وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ يَمُوْتُوْنَ )) [ بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿و ھو العزیز الحکیم ....﴾ : ۷۳۸۳ ]’’میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں، تُو وہ ہے کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور تو کبھی نہیں مرتا، جبکہ جن اور انسان مر جاتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : ﴿ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَّ يَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ﴾ [ الرحمٰن : ۲۶، ۲۷ ] ’’ہر ایک جو اس( زمین)پر ہے، فنا ہونے والا ہے اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا، جو بڑی شان اور عزت والا ہے۔‘‘ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ كَلِمَةُ لَبِيْدٍ : أَلاَ كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلاَ اللّٰهَ بَاطِلٌ )) [بخاري، مناقب الأنصار، باب أیام الجاہلیۃ : ۳۸۴۱ ] ’’سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی لبید کی بات ہے کہ سن لو! اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔‘‘ لَهُ الْحُكْمُ : یہ اللہ تعالیٰ کے معبودِ واحد ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ کائنات میں اسی کا حکم جاری و ساری ہے، اس کے سوا ’’ كُنْ‘‘ کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : یہ توحید کی تیسری دلیل ہے کہ تمام لوگوں کو اسی کے پاس واپس جانا اور اسی کے سامنے پیش ہونا ہے۔ دوسرے سب توخود پیش ہونے والے ہیں، پھر وہ معبود کیسے بن گئے۔