وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ آيَاتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَ ۖ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اور یہ لوگ تجھے اللہ کی آیات سے کسی صورت روکنے نہ پائیں، اس کے بعد کہ وہ تیری طرف اتاری گئیں اور اپنے رب کی طرف بلا اور ہرگز مشرکوں سے نہ ہو۔
1۔ وَ لَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ : ’’ وَ لَا يَصُدُّنَّكَ ‘‘ صاد اور دال کے ضمہ کے ساتھ یہ لفظ پورے قرآن میں اسی مقام پر ہے، دوسری تمام جگہوں میں دال کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ یہ نہی غائب جمع مذکر بانون تاکید ثقیلہ کا صیغہ ہے کہ تجھے ہر گز نہ روکیں۔ یہ دوسرا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات نازل ہونے کے بعد کفار خواہ کتنی کوشش کریں، کتنی ایذا پہنچائیں، یا کتنا لالچ دیں، ان آیات پر عمل سے اور ان کی تبلیغ سے کسی صورت آپ کو روکنے نہ پائیں۔ یہی بات دوسری جگہ فرمائی: ﴿ يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ﴾ [ المائدۃ: ۶۷ ] ’’اے رسول! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر تو نے نہ کیا تو تو نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔‘‘ 2۔ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ : یہ تیسرا حکم ہے کہ اپنے رب کی طرف دعوت دیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی دعوت پورے زور و شور سے دیتے رہیں، جس میں کوئی کمی یا کوتاہی نہ ہو، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْ اَدْعُوْا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۰۸ ] ’’کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔‘‘ 3۔ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ : یہ چوتھا حکم ہے کہ مشرکین سے ہر گز نہ ہوں۔