إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
بے شک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا، پس اس نے ان پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے کہ بلا شبہ ان کی چابیاں یقیناً ایک طاقتور جماعت پر بھاری ہوتی تھیں۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا مت پھول، بے شک اللہ پھولنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
1۔ اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى ....: کفار مکہ کے ایمان قبول نہ کرنے کا بہت بڑا باعث ان کے مالی اور دنیوی مفادات تھے، جس کا اظہار انھوں نے یہ کہہ کر کیا : ﴿ اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا ﴾ [ القصص : ۵۷ ] ’’اگر ہم تیرے ہمراہ اس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔‘‘ یہ لوگ بہت بڑے سیٹھ، ساہو کار اور سرمایہ دار تھے، جنھیں بین الاقوامی تجارت نے قارونِ وقت بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بہانے کو کئی طرح سے دور فرمایا، جس میں انھیں حرم کی بدولت حاصل نعمتوں کا تذکرہ بھی ہے، اپنی معیشت پر متکبر قوموں کی ہلاکت کا بھی اور اس بات کا بھی کہ دنیا میں تمھیں جو کچھ دیا گیا ہے وہ صرف دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے۔ اس کی وجہ سے آخرت کا نقصان نہ کرو، جو اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ درمیان میں قیامت کے دن مشرکوں کا حال اور توحید کے کچھ دلائل ذکر فرمائے۔ آخر میں قارون، اس کے مال و دولت، اس کے کفر و تکبر اور اس کے انجامِ بد کا ذکر فرمایا کہ دنیا کی دولت ایسی چیز نہیں کہ اس کی خاطر آدمی ایمان کی دولت اور ہمیشہ کی سعادت سے محروم رہے۔ 2۔ اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى: قرآن مجید نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا اور اپنی قوم کے خلاف فرعون کا ساتھی بنا ہوا تھا، جیسے تمام ظالم بادشاہ کسی قوم پر ظلم و ستم کے لیے اسی قوم کے کسی آدمی کو مال و دولت اور عہدہ و مرتبہ دے کر اپنا آلۂ کار بناتے ہیں۔ بعض تفسیروں میں لکھا ہے کہ یہ تورات کا حافظ تھا اور بہت خوب صورت آواز سے تورات پڑھتا تھا، مگر اندر سے منافق تھا۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کفر میں اتنا پکا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلانے والوں میں فرعون کے ساتھ جن دو آدمیوں کا نام لیا ہے ان میں سے ایک قارون تھا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ (23) اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ قَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ ﴾ [ المؤمن : ۲۳، ۲۴ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو انھوں نے کہا، جادوگر ہے، بہت جھوٹا ہے۔‘‘ (مزید دیکھیے عنکبوت:۳۹) اس کے مطابق اس کے تورات کا عالم یا منافق ہونے کی بات درست نہیں۔ 3۔ فَبَغٰى عَلَيْهِمْ: اس سے بڑی سرکشی کیا ہو گی کہ وہ اپنی ہی قوم کے خلاف ایسے شخص کا دست و بازو بن گیا جو ان کے لڑکے ذبح کرتا تھا، ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا اور انھیں بدترین سزائیں دیتا تھا۔ 4۔ وَ اٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ ....: اس سے معلوم ہوا کہ ظالموں کو جو مال ملتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے، جس میں ان کی آزمائش اور ان پر حجت پوری کرنے کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ’’اَلْعُصْبَةُ ‘‘ غیر معین آدمیوں کی جماعت۔ اسے ’’عُصْبَةٌ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کا ہر فرد دوسرے کے لیے قوت کا باعث ہوتا ہے۔ عرف میں دس سے لے کر چالیس آدمیوں کی جماعت کو کہتے ہیں۔ ’’مَفَاتِحُ‘‘ ’’مِفْتَحٌ‘‘ کی جمع ہے، چابیاں۔ یعنی ہم نے قارون کو اتنے خزانے دیے تھے جن سے بھرے ہوئے کمروں کے تالوں کی چابیاں ایک قوت والی جماعت پر اٹھانے میں بھاری تھیں۔ تفاسیر میں ان خزانوں کی عجیب و غریب تفصیل مذکور ہے، جس کی تصدیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ صاحبِ کشّاف نے فرمایا : ’’اس کے اموال کی کثرت کے بیان میں مبالغے کے کئی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی ’’اَلْكُنُوْزُ، اَلْمَفَاتِحُ، اَلنَّوْءُ (بھاری ہونا) اَلْعُصْبَةُ، أُوْلِي الْقُوَّةِ‘‘ اس سے ان اموال کا بہت زیادہ ہونا ثابت ہو رہا ہے۔‘‘ 5۔ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ ....: انسان کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے نوازے تو وہ ان پر پھول جاتا ہے، اس کی گفتگو، اس کا لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے رنگ ڈھنگ، غرض اس کی ایک ایک ادا سے کبر و غرور ٹپکنے لگتا ہے۔ یہی حال قارون کا ہوا، بنی اسرائیل کے نیک بزرگ اور عالم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے دولت دی ہے تو اپنے آپ میں رہ، اسے اللہ کی نافرمانی میں خرچ مت کر اور پھول مت جا، اللہ تعالیٰ پھول جانے والوں سے محبت نہیں کرتا۔