هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ
وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، کہا اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کو بہت سننے والا ہے۔
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهٗ....: زکریا علیہ السلام بوڑھے ہو چکے تھے اور ابھی تک بے اولاد تھے، بیوی بانجھ تھی، بظاہر انھیں اولاد کی کوئی امید نہ تھی، لیکن یہ دیکھ کر کہ کس طرح مریم علیھا السلام کو خرق عادت کے طور پر بے موسم کا رزق پہنچ رہا ہے، ان کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ بے موسم کا رزق پہنچانے والا مایوسی کے عالم میں اولاد بھی عطا فرما سکتا ہے، چنانچہ اسی جگہ اور اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور نیک اولاد کی دعا کی۔ بعض علماء نے مریم علیہا السلام کو خرق عادت میوے پہنچنے کا انکار کیا اور کہا ہے کہ یہ محاورہ ہے کہ خدا رسیدہ لوگ ہر نعمت کو (من عند اللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں، مگر زکریا علیہ السلام کا اس حالت کو دیکھ کر اظہار تعجب اور دعا کرنا بتا رہا ہے کہ رزق خرق عادت (بطور کرامت) ہی مل رہا تھا۔ پچھلی آیت کے حاشیہ میں خبیب رضی اللہ عنہ کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں اور زکریا علیہ السلام کا واقعہ سورۂ مریم کے شروع میں ملاحظہ کریں۔