فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ
پھر جب ان کے پاس ہمارے ہاں سے حق آگیا تو انھوں نے کہا اسے اس جیسی چیزیں کیوں نہ دی گئیں جو موسیٰ کو دی گئیں؟ تو کیا انھوں نے اس سے پہلے ان چیزوں کا انکار نہیں کیا جو موسیٰ کو دی گئی تھیں۔ انھوں نے کہا یہ دونوں (مجسم) جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور کہنے لگے ہم تو ان سب سے منکر ہیں۔
1۔ فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا ....: یعنی رسول نہ بھیجتے تو بہانہ ہوتا کہ رسول کیوں نہ بھیجا، اب ہماری طرف سے رسول آیا تو ضد اور عناد سے کہنے لگے کہ اسے اس قسم کے معجزات کیوں نہیں دیے جو موسیٰ کو دیے گئے تھے، مثلاً عصا، یدِبیضا، سمندر کا پھٹنا، بادلوں کا سایہ کرنا، پتھر سے بارہ چشمے پھوٹنا، من و سلویٰ کا اترنا، اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا اور تورات کا الواح کی شکل میں نازل ہونا وغیرہ۔ معلوم ہوا نہ ماننا ہو تو بہانے ختم نہیں ہوتے۔ 2۔ مفسر رازی فرماتے ہیں : ’’ان لوگوں نے جو مطالبہ کیا ضروری نہیں تھا کہ اسی طرح ہوتا، کیونکہ نہ تمام انبیاء کے معجزات کا ایک ہونا لازم ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ ان پر اترنے والی کتاب ایک ہی طرح نازل ہو، کیونکہ کبھی کتاب کا اکھٹا نازل ہونا بہتر ہوتا ہے جیسے تورات اور کبھی جدا جدا کر کے نازل کرنا بہتر ہوتا ہے، جیسے قرآن۔‘‘ 3۔ اَوَ لَمْ يَكْفُرُوْا بِمَا اُوْتِيَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ : یعنی ان کے طلب کردہ معجزات اگر دکھا بھی دیے جائیں تو کیا فائدہ؟ جنھوں نے طے کر لیا ہے کہ ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے۔ کیا ان کے ہم جنس لوگوں نے جو ان جیسا مذہب اور ان جیسا عناد رکھنے والے تھے، یعنی موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے کافر، انھوں نے ان معجزات کا انکار نہیں کیا تھا جو موسیٰ کو دیے گئے تھے؟ انھوں نے موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کے متعلق کہا تھا کہ یہ (اتنے بڑے جادوگر ہیں کہ) مجسم جادو ہیں، جو ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور انھوں نے کہا تھا کہ ہم تو ان سب سے منکر ہیں۔ یہ معنی درست ہے، مگر اس سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ’’ اَوَ لَمْ يَكْفُرُوْا ....‘‘ (کیا انھوں نے ان چیزوں کا انکار نہیں کیا جو موسیٰ کو دی گئیں) میں انکار کرنے والوں سے مراد قریش ہی ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ معجزے لانے کا مطالبہ کیا جو موسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے۔ اس معنی کے زیادہ صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ’’ فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ‘‘ سے لے کر ’’ وَ قَالُوْا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ ‘‘ تک سب باتیں کہنے والے وہی لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا : ﴿ قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَا ﴾ ’’کہہ پھر اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو۔‘‘ ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات کہنے کا حکم ان لوگوں کے لیے تھا جو آپ کے مخاطب تھے اور وہ قریش تھے، یا آپ کے زمانے کے دوسرے کفار، کیونکہ وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہی کے منکر نہ تھے بلکہ اس سے پہلی نبوتوں کے بھی منکر تھے، وہ نہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا کر ان کے تابع دار بنے، نہ عیسیٰ علیہ السلام پر۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے زمانے کے کفار کا قول نقل فرمایا : ﴿ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ لَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ [ سبا : ۳۱ ] ’’اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، ہم ہرگز نہ اس قرآن پر ایمان لائیں گے اور نہ اس پر جو اس سے پہلے ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے جن معجزوں کا یہ مطالبہ کر رہے ہیں ان معجزوں کے باوجود موسیٰ علیہ السلام پر بھی یہ کب ایمان لائے تھے جو اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ خود کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزے دیے گئے تھے، مگر پھر بھی انھوں نے ان کو نبی مان کر ان کی پیروی کبھی قبول نہیں کی۔ 4۔ قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظٰهَرَا: یعنی قرآن اور تورات دونوں جادو ہیں، جو ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہی نقل فرمایا ہے۔ آسمانی کتابوں میں قرآن کے بعد سب سے عظیم الشان کتاب تورات ہے، موسیٰ علیہ السلام کے بعد تمام انبیاء بشمول عیسیٰ علیہ السلام اسی پر عمل پیرا رہے، اس لیے قرآن میں عموماً تورات اور قرآن کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، جیسا کہ فرمایا:﴿ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ ﴾ [ الأنعام :۹۱] ’’کہہ وہ کتاب کس نے اتاری جو موسیٰ لے کر آیا؟ جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی۔‘‘ یہاں تورات کے نور اور ہدایت ہونے کا ذکر فرمایا، پھر قرآن کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ ﴾ [ الأنعام : ۹۲] ’’اور یہ ایک کتاب ہے، ہم نے اسے نازل کیا، بڑی برکت والی ہے، اس کی تصدیق کرنے والی جو اس سے پہلے ہے۔‘‘ اسی سورۂ انعام کے آخر میں فرمایا: ﴿ ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِيْ اَحْسَنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۵۴ ] ’’پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اس شخص پر (نعمت) پوری کرنے کے لیے جس نے نیکی کی۔‘‘ اور اس سے اگلی آیت میں قرآن کا ذکر فرمایا : ﴿ وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۵۵ ] ’’اور یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی، پس اس کی پیروی کرو اور بچ جاؤ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘