وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور نہ تو پہاڑ کے کنارے پر تھا جب ہم نے آواز دی اور لیکن تیرے رب کی طرف سے رحمت ہے، تاکہ تو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
1۔ وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَيْنَا: ان تینوں آیات میں ’’ وَ مَا كُنْتَ ‘‘ (اور تو وہاں موجود نہ تھا) کی تکرار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق اور صدق پر ہونے کو واضح فرمایا گیا ہے کہ جب آپ ان مقامات میں سے کہیں بھی موجود نہیں تھے، پھر بھی ان کے بارے میں اصل حقائق کو صحیح طور پر اور بالکل واقعہ کے مطابق بیان کرتے ہیں تو یہ اس بات کی کھلی دلیل اور واضح ثبوت ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس کی وحی آپ کے پاس آتی ہے جس کے ذریعے سے آپ یہ سب کچھ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ 2۔ ’’ وَ مَا كُنْتَ ‘‘ (اور تو وہاں موجود نہ تھا) کی تکرار کے ساتھ یہ اہم حقیقت بھی واضح فرما دی گئی ہے کہ پیغمبر حاضر و ناظر اور ہر جگہ موجود نہیں ہوتے، نہ وہ عالم الغیب ہوتے ہیں۔ انھیں جو علم ہوتا ہے وحی کے ذریعے سے ہوتا ہے اور وہ بھی اتنا جتنی وحی کی جائے۔ 3۔ وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ: یعنی آپ کو یہ واقعات اس لیے معلوم نہیں ہوئے کہ آپ ان مواقع پر موجود تھے، یا انھیں دیکھ رہے تھے، بلکہ یہ آپ کے رب کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور وحی سے نوازا۔ 4۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ ....: اس قوم سے مراد اہل مکہ اور عرب ہیں۔ ان میں ابراہیم، اسماعیل اور شعیب علیھم السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ ہزاروں برس کی اس طویل مدت میں باہر کے انبیاء کی دعوتیں تو ضرور وہاں پہنچتی رہیں، مثلاً موسیٰ اور عیسیٰ علیھما السلام کی دعوت، کیونکہ اس کے بغیر ان کا کفر و شرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہتا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ عذر کسی کے لیے باقی نہیں چھوڑا، مگر خاص اس سر زمین میں کسی نبی کی بعثت نہیں ہوئی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہاں آخری پیغمبر کو مبعوث فرمایا۔ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ سجدہ (۳) اور یٰس (۱ تا ۶)۔