قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا ۚ بِآيَاتِنَا أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ
کہا ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو ضرور مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے، ہماری نشانیوں کے ساتھ تم دونوں اور جنھوں نے تمھاری پیروی کی، غالب آنے والے ہو۔
1۔ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ ....: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور تین باتوں کا وعدہ فرمایا، پہلا یہ کہ ہم ہارون کو نبی بنا کر تمھارا بازو ضرور مضبوط کریں گے (سین تاکید کے لیے ہے)، وہ تمھارے ساتھ فرعون کے دربار میں جائیں گے۔ بعض سلف نے فرمایا، کسی بھائی پر اس کے بھائی کا اتنا بڑا احسان نہیں جتنا بڑا احسان موسیٰ علیہ السلام کا ہارون علیہ السلام پر ہے کہ ان کی شفاعت سے انھیں نبوت مل گئی، اس سے اللہ تعالیٰ کے ہاں موسیٰ علیہ السلام کا مرتبہ بھی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًا ﴾ [ الأحزاب : ۶۹ ] ’’اور وہ (یعنی موسیٰ علیہ السلام ) اللہ کے ہاں بہت مرتبے والا تھا۔‘‘ 2۔ فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا بِاٰيٰتِنَا: دوسرا وعدہ یہ کہ فرعونیوں کے مقابلے میں تم دونوں کو ہم ایسا غلبہ اور دبدبہ عطا کریں گے کہ ہمارے معجزے تمھارے ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ تم تک پہنچ نہیں پائیں گے اور نہ کسی قسم کی دست درازی کر سکیں گے۔ چنانچہ بعد میں ایسے ہی ہوا کہ فرعون اور اس کے سرداروں کو تمام تر اسباب و وسائل اور اسلحہ و افواج کے باوجود کبھی اس بات کی جرأت و ہمت نہ ہو سکی کہ ان پر کسی طرح ہاتھ اٹھا سکیں۔ یہ تفسیر ’’ بِاٰيٰتِنَا ‘‘ کو ’’ فَلَا يَصِلُوْنَ ‘‘ کے متعلق کرنے کی صورت میں ہے۔ 3۔ بِاٰيٰتِنَا اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ: یہ تیسرا وعدہ ہے کہ تم دونوں اور تمھارے پیروکار ہی آخر کار غالب ہوں گے۔ ’’بِاٰيٰتِنَا ‘‘ کو’’ الْغٰلِبُوْنَ‘‘ کے متعلق کرنے سے معنی یہ ہوگا کہ تم دونوں اور تمھارے پیروکار ہی ہمارے معجزات کی بدولت غالب رہو گے۔ یہ مضمون کہ رسول اور ان کے پیروکار ہی آخر غالب ہوں گے، قرآن میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورۂ مومن (۵۱) اور مجادلہ (۲۱)۔