اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ۖ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ
اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں داخل کر، وہ کسی عیب کے بغیر سفید (چمکدار) نکلے گا اور خوف سے (بچنے کے لیے) اپنا بازو اپنی جانب ملالے، سو یہ دونوں تیرے رب کی جانب سے فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف دو دلیلیں ہیں۔ بلاشبہ وہ ہمیشہ سے نافرمان لوگ ہیں۔
1۔ اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ ....: دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ اَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ ﴾ [النمل: 12] ’’سِلْكٌ‘‘ اس دھاگے کو کہتے ہیں جس میں موتی پروئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں دھاگا مہارت اور احتیاط سے داخل کیا جاتا ہے، یعنی کسی گھبراہٹ کے بغیر اطمینان کے ساتھ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو۔ مزید دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۲۲)۔ 2۔ وَ اضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ: موسیٰ علیہ السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا جا رہا تھا، اس میں کئی مقامات ایسے آنے والے تھے جن میں آدمی شدید خوف کا شکار ہو جاتا ہے، بلکہ اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ دو عظیم الشان معجزوں کے ساتھ اس خوف کا علاج بھی بتا دیا کہ جب بھی تمھیں کوئی خوف محسوس ہو اپنا بازو پہلو کے ساتھ اچھی طرح ملا لو، اس سے تمھارا دل مضبوط ہو جائے گا اور خوف دور ہو جائے گا۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ خوف کے وقت کوئی شخص موسیٰ علیہ السلام کی اقتدا میں یہ عمل کرے تو اس کا خوف ختم ہو جائے گا یا کم ہو جائے گا۔ (ان شاء اللہ) 3۔ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ ....: یعنی لاٹھی کا سانپ بننا اور ہاتھ کا سفید چمک دار ہو کر نکلنا صرف آج اسی موقع کے لیے نہیں بلکہ یہ دونوں معجزے فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجتے ہوئے تمھیں نبوت کی دلیل اور سند کے طور پر عطا کیے گئے ہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ سے نافرمان لوگ ہیں۔ انھیں دعوت دینے اور ان پر حجت تمام کرنے کے لیے ایسے ہی زبردست معجزوں کی ضرورت ہے۔ ’’إِنَّ ‘‘ تعلیل کے لیے ہوتا ہے اور ’’كَانَ‘‘ میں ہمیشگی کا معنی پایا جاتا ہے۔