قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ
دونوں میں سے ایک نے کہا اے میرے باپ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقتور، امانت دار ہی ہے۔
1۔ قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا يٰاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ: ان دونوں میں سے ایک نے کہا، ابا جان! آپ اسے مزدور رکھ لیں، تاکہ ہم عورتوں کو بکریاں چرانے کی مشقت سے رہائی مل جائے۔ ضروری نہیں کہ اس نے یہ بات موسیٰ علیہ السلام کی اس کے باپ سے پہلی ملاقات کے وقت ہی کہہ دی ہو۔ تین دن مہمان نوازی تو حق ہے، اس لیے غالب یہی ہے کہ اس دوران ان لڑکیوں اور ان کے والد نے موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف حمیدہ کا اچھی طرح سے مشاہدہ کر لیا تو لڑکی نے اپنے باپ سے یہ بات کہی۔ 2۔ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ: تفسیر ابن کثیر میں ہے : ’’عمر، ابن عباس، شریح قاضی، ابو مالک، قتادہ، محمد بن اسحاق اور کئی ایک نے فرمایا کہ اس کے والد نے پوچھا، تمھیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟ اس نے کہا، اس نے وہ پتھر اٹھا لیا جو دس آدمیوں سے کم اٹھا نہیں سکتے اور جب میں اس کے ساتھ آئی تو اس کے آگے چل رہی تھی، اس نے مجھ سے کہا، میرے پیچھے چلی آؤ اور جہاںراستہ بدلنا ہو مجھے کنکری کے ساتھ اشارہ کر دو، میں سمجھ جاؤں گا کس طرف جانا ہے۔‘‘ تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم کا قول ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [ ابن أبي حاتم : ۱۶۸۴۳ ] دوسرے ائمہ کے اقوال بھی طبری (۲۷۶۰۹) یا ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیے ہیں، مگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں، اس لیے اس کا ماخذ اسرائیلی روایات ہی ہے۔ 3۔ سب سے بہتر شخص جسے تم اجرت پر رکھو وہ ہے جو قوت والا اور امانت دار ہو۔ یہ ہے وہ قاعدہ جو کسی شخص کو ذمہ داری دیتے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک وقت میں یہ دونوں صفات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر کام کی اہلیت اور قوت رکھتا ہے تو امانت میں کمزور ہے اور اگر امین ہے تو قوت و اہلیت نہیں رکھتا۔ آج کل حکومتیں کسی عہدے پر مقرر کرنے سے پہلے امتحانات اور انٹرویو کے ذریعے سے اہلیت کا اندازہ تو کرتی ہیں مگر امانت کا نہیں، نتیجہ بے حساب بد دیانتی اور خیانت ہے، جس نے مسلمان ملکوں کی معیشت اور معاشرت دونوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ 4۔ اس بات سے اس لڑکی کی کمال فراست اور آدمیوں کی پہچان کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’لوگوں میں سب سے زیادہ فراست والے تین ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فراست عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں، عزیز مصر کی یوسف علیہ السلام کے متعلق فراست، جب اس نے بیوی سے کہا : ﴿اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ ﴾ [یوسف : ۲۱ ] ’’اس کی رہائش باعزت رکھ۔‘‘ اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ والی خاتون کی فراست کہ جس نے کہا : ﴿ يٰاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ ﴾ [ القصص : ۲۶ ] ’’اے میرے باپ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقت ور، امانت دار ہی ہے۔‘‘ [ ابن أبي حاتم : ۱۶۸۳۸ ]